اس ہجوم بے کنار کو ناپیدا کناریاں درپیش ہیں۔مگر یہ خود اپنا بھلا نہیں چاہتا۔وہ اس لئے کہ جب تک اس کے دل میں خود اپنی بہتری کی خواہش پیدا نہیں ہوگی۔ یہ ہجوم بس ہجوم ہی رہے گا۔ اس کو قوم بننے میں ابھی امتحاں او ربھی ہیں۔اس کے بہت سے اور ان گنت بے شمار اور لامتناہی لا محدود مسائل ہیں۔جن کو اگر ایک جگہ کر کے لکھا جائے تو پوری کتاب تیار ہو جائے گی۔ مگر مسائل کا انبار ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔ختم سے مراد اس کتاب کے آخری صفحے تک پہنچنا۔ مسائل کے ختم ہونے کا تو ذکر ہی نہیں۔ہماری کم علمی اور غیر سنجیدگی کی مثالیں ہمارے معاشرے میں چاروں اور پھیلی ہیں۔جیسے جنگل کی آگ کہ ایک درخت سے دوسرے کو لگے اور آگے بڑھتی جائے۔جب تک ہم خود درست نہ ہوں گے ہماری معاشرت کیسے درست ہو سکتی ہے۔یہ اب ناممکن ہے کہ ہم ٹھیک نہ پائیں اور چاہیں کہ ہماری سوسائٹی ٹھیک ٹھاک ہوجائے۔اس کیلئے بہت پاپڑ بیلنا ہوں گے۔سڑکیں گلیاں چوبارے پارکس اور کیا کیا کچھ ہے جو درست نہیں ہو رہا۔مگر ہما را قبلہ کب درست ہوگا۔ ہم تو غلط سمت کو رواں دواں ہیں۔پھر سمجھتے ہیں کہ ہم درست طرف کو جارہے ہیں۔ہم میں سے ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہ بہت زیادہ سمجھتا ہے۔باقی لوگ نا سمجھ اور احمق ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا بیوقوف وہی ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقلمندسمجھتا ہو۔یہاں اس قسم کے احمق دانا بہت ہیں۔اب قطار بنانا کون سا مشکل کام ہے۔پھر بھلا یہ بھی کوئی کام ہے۔یہ تو بہت آسان ہے۔مگر بینک ہو کوئی اور مقام‘ہسپتال ہو یا کوئی بھی ٹکٹ گھر۔ ہمارے لئے یہ بہت بڑی بے عزتی اور سبک روی ہے کہ ہم اس جگہ قطار میں کھڑے ہوں۔بھلا یہاں کہنے کی کیا ضرورت پیش آئے کہ قطار بناؤ۔چوکیدار کو یا سیکورٹی گارڈ کو کہہ کر لوگوں کو ایک قطار میں کھڑے ہوکر کاؤنٹر تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔اگر قطار بن جائے تو بات آسان ہو جاتی ہے۔اگر قطار نہ بنے تو بات بہت گراں ہوتی ہے اور گراں گذرتی ہے۔ہمارے ہاں ایسے بھی ٹائیکون ہیں جو لائن بنانے کو ہتک عزت سمجھتے ہیں۔یہ تو اچھا ہے کہ وہ اس موقع پر عدالتی طور پر ہتک عزت کا دعوی ٰ نہیں کرتے۔لیکن اگر ان کے پاس وقت کی کمی کا احساس نہ ہوتا۔ پھر وہ جلدی میں نہ ہوتے تو وہ ہرجانے کے ساتھ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ایسے طور سم خان بھی ہیں کہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ ہم جہاں کھڑے ہوتے ہیں لائن وہاں سے شروع ہو تی ہے۔ پھر ایسا ہوتا بھی ہے۔لائن ساری کی ساری ان کے پیچھے آن کھڑی ہوتی ہے۔یہ تو ایک علامتی بات ہے۔ غور فرمائیں تو ہمارا سارا معاشرہ انہی رویوں کے تحت چل رہاہے۔ لائن بنانے میں کیا عار ہے۔مگر بعض تو قطار بنانے کو شرمندگی سمجھتے ہیں۔بلکہ لائن میں کھڑے بھی نہ ہوں گے اور سامنے صوفے پر بیٹھے بیٹھے ان کاکام ہو جائے گا۔اب یہ باتیں الگ ہیں اور ان کے معاملا ت افسروں اور کاؤنٹر پر موجود عملہ کے ساتھ جدا ہیں۔ہم قطار بنانے کے عادی ہی نہیں۔ہمیں کاؤنٹر سے آواز آتی ہے یار لائن میں کھڑے ہو جاؤ۔ وگرنہ تو ہر کس و ناکس کی کوشش ہوتی ہے کہ لائن سے ہٹ کر کھڑکی میں جمع کروائے یا وصول کر ے۔ہجوم بنانے سے کھڑکی کے پاس قطار بناناازحد اور بے حد مفید ہوتا ہے۔اس موقع پر لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔بندے خونم خون ہو جاتے ہیں۔مشت و گریبان ہونا تو عام سی بات ہے۔ بلکہ کاؤنٹر والے کے ساتھ بھی الجھ جاتے ہیں۔ایفل ٹاور پیرس میں ہے۔دنیا کے عجیب اور حیران کن مقامات میں سے ایک ہے۔وہاں بھی کھڑے ہوں تو قطار بنا کر اندر جانا پڑتاہے۔کسی کو کوئی چوکیدار یا پولیس والا نہیں کہتا کہ لائن میں کھڑے ہو جاؤ۔ بلکہ وہ خوداس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں وہ خودلائن میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں۔ یہی وہ خواہش ہے کہ جو ان کے اندرون دل میں جا گزیں ہے۔جس کی وجہ سے ان کامعاشرہ درست سمت میں جارہا ہے۔اسی لئے وہ لوگ اپنی انھیں خو د بخود کی نظم و ضبط کی اداؤں کی وجہ سے دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔یہی خواہش ہم میں پیدا ہوگی۔ پھر ہم کسی پولیس سپاہی کی آواز کے محتاج نہ ہوں گے۔کسی سکیورٹی گارڈ کی موجودگی کو ضروری نہیں جانیں گے۔ تب جا کر ہماری معاشرتی خرابی کے دور ہونے کے امکانا ت ہیں۔اگر اس دنیا اور کائنا ت کی مثال ایک انگوٹھی کی سی ہے۔ جس میں نگینہ نہیں ہے۔پھر اس بات کو سمجھناکون سا مشکل ہے کہ اس کائنات میں جاری و ساری ایک نظم و ضبط ہے۔ جو کسی انسان نے تخلیق نہیں کیا۔یہ بات علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم میں کہی ہے۔اس موقع پر سینکڑوں ہزاروں مثالیں ہیں۔ جوقدرتی ہیں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہمارے آس پاس موجودہیں۔ذرا غورکرنے سے ایک ایک کرکے دکھائی دینے لگیں گی۔