ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ”ایبٹ آباد‘‘خیبرپختونخوا کے تفریحی مقامات کا ”گیٹ وے“ اور تعلیمی اداروں کا شہر کہلاتا ہے۔ یہاں سے گلیات‘ کاغان و ناران اور شمالی علاقہ جات تا چین جانے والوں کے پڑاؤ سارا سال رہتے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ سے ایبٹ آباد اور جنت نظیر وادیوں پر مشتمل گلیات کے علاقوں کا قدرتی حسن شدید متاثر ہو رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایبٹ آباد شہر سے نکاسیئ آب کے نالے نالیوں اور برساتی راہداریوں پر تجاوزات قائم ہیں جس کی وجہ سے چند منٹ کی بارش کے بعد منڈیاں سے سپلائی اور سپلائی سے فوارہ چوک تک طغیانی کے باعث ہر قسم کی آمدورفت (ٹریفک) معطل ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح گلیات کی وادیوں میں بے ہنگم آبادی کے سبب جنگلات کا رقبہ اور جنگلی حیات دونوں ہی دباؤ کا شکار ہیں‘ جبکہ ضرورت نئے سیاحتی مقامات بنانے اور سو سال سے پرانے سیاحتی مقامات جنہیں برطانوی راج کے دوران ترقی دی گئی تھی کے متبادل دیگر پرکشش مواقعوں میں اضافے کی ہے لیکن حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کا مرکز بھی گلیات کی قدیمی وسائل ہی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ گلیات میں جدید ترین سہولیات پر مشتمل عالمی معیار کے مطابق ہوٹل تعمیر کیا جائے لیکن اِس کے لئے کتنے درخت کاٹے جائیں گے؟ شاہراؤں کی توسیع اور گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے پہاڑوں کو کس قدر تراشا جائے گا؟ اُور سب سے بڑھ کر سینکڑوں کمروں پر مشتمل ہوٹل بنانے کے بعد اُس کے لئے پانی کا بندوبست اور نکاسیئ آب کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا کہ اِس سے جنگلات و جنگلی حیات متاثر نہ ہوں۔ اِس جیسے بہت سارے سوالات اُٹھانے والے گلیات کے باسی چاہتے ہیں کہ تعمیروترقی کے عمل میں بنیادی سہولیات کی فراہمی سے زیادہ قدرتی ماحول و تنوع سے چھیڑچھاڑ نہ کی جائے۔ نتھیا گلی میں فائیو سٹار ہوٹل اور ایوبیہ میں چیئر لفٹ کی تعمیر نو جیسے منصوبوں سے سیاحت کی ترقی اور روزگار کا فروغ ہوگا لیکن اِس کی قیمت ماحول کی خرابی کی صورت برداشت کرنا پڑے گی اور اِس پہلو کی جانب حکومتی محکمے (جنگلی حیات وائلڈ لائف) نے بھی توجہ دلائی ہے کہ گلیات میں بڑے پیمانے پر تعمیرات ماحولیات اور جنگلی حیات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ مذکورہ دونوں ترقیاتی منصوبوں (فائیو سٹار ہوٹل اُور ایوبیہ چیئر لفٹ) کی تعمیر کے لئے حسب قانون متعلقہ محکمے (جنگلی حیات) یا ماحولیاتی تحفظ کے ادارے سے ماحولیاتی تشخیص نہیں کروائی گئی اُور نہ ہی اِن محکموں سے منظوری حاصل کی گئی ہے جو ایک قانونی تقاضا ہے۔ وائلڈ لائف ایکٹ 2015ء اور آرڈنینس 2020ء کے تحت ایوبیہ نیشنل پارک کو محفوظ رکھنا قانونی ذمہ داری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حسب حکمت عملی نتھیا گلی کے 22 کنال اراضی پر زیر تعمیر 4 منزلہ فائیو سٹار ہوٹل میں 140کمرے ہوں گے‘ یہ 2024ء تک مکمل ہوگا اُور یہ اراضی 2 اداروں کے اشتراک سے بننے والے ہوٹل کے مالکان کو 86 کروڑ روپے کے عوض چالیس سال کے اجارے (لیز) پر دی گئی ہے‘ جنہوں نے 36 کروڑ روپے ادا کر دیئے ہیں اُور باقی رقم بیس سال کے عرصے میں 2 اقساط کی صورت ادا کریں گے۔ اِسی طرح ایوبیہ چیئر لفٹ کی تعمیر نو منصوبے میں کے لئے 106 کنال اراضی چالیس سال اجارے (لیز) پر دی گئی ہے جس کا سالانہ کرایہ 9کروڑ 60لاکھ جبکہ 45کروڑ روپے لیز کی مد میں یک مشت ادا کئے جائیں گے اور ہر تین سال بعد کرائے میں 10فیصد اضافہ ہو گا یعنی ایک مرتبہ دیا جانے والا اجارہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا اور اِس کی شرح میں خودبخود سالانہ اضافہ ہوتا رہے گا۔ ایوبیہ نیشنل پارک میں 33 اقسام کے ممالیہ جانور‘ 200 سے زیادہ اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں جو چیئر لفٹ والے مقامات پر تعمیرات سے متاثر ہوں گے اُور اِسی بات کی جانب محکمہئ جنگلی حیات نے توجہ دلاتے ہوئے تحریراً کہا ہے کہ ”(گلیات میں نئی تعمیرات سے) خطرے کا شکار جنگلی حیات کی آماجگاہ سکڑ سکتی ہے جس سے جنگلی جانور انسانوں کے آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔“