15 اگست کو کابل کی فتح کے بعد طالبان کے بارے میں یہ منفی تاثربڑی تیزی سے پھیلایا جارہاتھاکہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر انتقامی کاروائیوں کاارتکاب کریں گے لیکن یہ خدشات اب تک مکمل طور پر غلط ثابت ہوچکے ہیں کیونکہ6 اگست سے اپنی فتوحات کا سلسلہ شروع کر نے کے بعد سے طالبان کے بارے میں اب تک نہ تو کسی بھی علاقے سے قتل عام اور اپنے مخالفین سے کوئی انتقام لینے کی اطلاع آئی ہے اور نہ ہی انکی جانب سے ایسا کوئی عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین سے کوئی بدلہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔طالبان کی وسعت قلبی کا اندازہ جہاں کابل میں انکے سیاسی مخالفین سابق صدر حامد کرزئی اورشمالی اتحاد کے دیگرسابق راہنماؤں کی محفوظ موجودگی سے لگایاجاسکتا ہے وہاں انہوں نے پنجشیر میں بھی مزاحمت پر آمادہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمدمسعوداور سابق نائب صدر امراللہ صالح کے خلاف جنگ کی بجائے مذاکرات کی پالیسی اپنائی لیکن جب وہ کسی بھی صورت تصفیئے پر آمادہ نہیں ہوئے تو طالبان کوبہ امر مجبوری ان کے خلاف لشکر کشی کرنا پڑی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ طالبان کی موجودہ قیادت اور ماضی کے طالبان میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی بجائے ان کے لئے تعلیم کا الگ بندوبست طالبان کا ایک ایسانیا روپ ہے جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے طالبان کو احساس ہے کہ خطے کا اور کوئی ملک کسی بھی مصیبت میں پاکستان سے بڑھ کر ان کی مدد نہیں کر سکتا ہے اس لئے بعض لوگ تو یورپ اور امریکہ سے بھی بڑھ کرپاکستان میں بسنے اور یہاں آنے کے متمنی نظر آتے ہیں کیونکہ ا نکے رشتہ دار یہاں مقیم ہیں اور یہاں انہیں زندگی کی وہ تمام سہولیات دستیاب ہیں جو اور کہیں نہیں ہیں۔ طالبان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کو افغانوں کے لئے ویزے کی شرائط ختم کرنی چاہئیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان دور حکومت میں وہ پاکستان سے یہ رعایت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسی طرح یہ بات بھی خوش آئندہے کہ حالات خراب ہونے کے باوجود افغانستان میں عام روز مرہ کی اشیاء نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ انکے نرخ پاکستان سے بھی کم ہیں حالانکہ وہاں حکومتی سیٹ اپ ابھی بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہے لیکن پھر بھی امن وامان کی عمومی صورتحال اور خاص کر لوگوں کا طالبان کو خوش آمدید کہنا نہ صرف طالبان حکومت پر اعتماد کا مظہر ہے بلکہ اس سے عام لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی کابھی امکان ہے۔اسی طرح طالبان کے حوالے سے ایک تاثر یہ بھی دیاجاتا رہا ہے کہ انھوں نے دوحاکے معاہدے میں دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ انکی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی لہٰذا وہ اپنے اس معاہدے کی پاسداری کے پابند ہیں بصورت دیگر انہیں سخت بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گاحالانکہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے نہ تو اپنی گزشتہ حکومت میں کسی دوسرے ملک کے معاملات میں کوئی مداخلت کی تھی اور نہ ہی ان کا موجودہ دور میں کچھ اس طرح کے عزائم نظر آتے ہیں۔