ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے مزاجوں میں چڑچڑے پن نے گھرکرلیا ہے۔ہم میں سے بہت لوگ چڑچڑے پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب بھی ہم کسی اچھی یا بری چیز کا موازنہ کریں۔اس وقت ہم اس کے تضاد کے طور پر دوسری چیز کو سامنے رکھتے ہیں۔اب ہمارے چڑچڑے پن ہی کو لیں۔ یہ باہر کے ترقی یافتہ ملکوں میں یوں عام اور سرِ عام نہیں۔ہمارے یہاں یہ بیماری بہت زیادہ ہے۔یہاں تو کوئی کسی کی بات کو پورے طور پر تو کیا اس میں دو ایک لفظ بھی غورسے نہیں سنتا۔ شاید ان کے پاس ٹائم نہیں۔اگر فراغت ہے تو پھر حوصلہ اور صبر نہیں۔اگر سب کچھ ہے تو ایک بے نام سی بے سکون کیفیت ہے۔ظاہر ہے کہ سب اچھی علامات سکون ہی کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔اسی لئے کہتا ہو ں کہ باہر کے معاشروں میں وہاں ایک بہتر نظام ہے۔قدم قدم پر ایک سسٹم موجود ہے۔جو اس معاشرت کو کنٹرول کرتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں ایک بے سکون صحرا ہے کہ جس میں ہم سفر کر رہے ہیں۔وہ سفر بھی پیدل ہے۔ بوجھل قدم ہیں اور تھکے ہوئے دل ہیں۔اس میں پانی تو کیا خوراک بھی نہیں۔بلکہ گونج تک نہیں۔بقول احمد فراز ”صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا۔ سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم“۔ایسی صورتِ حال میں بندہ چڑچڑا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ شاید یہ تعلیم کی کمی سے ہو یا شعور کی عدم دستیابی کا شجرہ ہو۔مگر یہ مان لینے میں کیا حرج ہے کہ ہم میں برداشت کامعاملہ زیرو برابر زیرو ہے۔جب موازنہ کرنا ہے تو اپنا معاشرہ دیکھ لیں۔ یہاں کیا ہو رہاہے۔سب سے پہلے تو روٹی کامسئلہ ہے۔یہ نہیں کہ تندور بند ہیں۔مراد معیشت ہے۔جس کی وجہ سے گھروں میں جہاں دس روٹیاں آتی تھیں اب پانچ آنے لگی ہیں۔کیونکہ اخراجات زیادہ ہو چکے ہیں۔بلکہ چڑچڑے پن کی بہت سی وجوہات ہیں۔آج کل کی گرمی بھی تو اس کا سبب ہے۔بندے جو کام کاج پر لگے ہوتے ہیں۔موسم ان کے مزاج پر اثر انداز ہوتاہے۔موسم کی گرمی مزاج میں در آتی ہے۔ بندہ اپنی جان سے بیزار ہوتا ہے۔پہلے ہی وہ اندر اندر کڑھ رہا ہوتا ہے۔اوپر سے کوئی ایسی بات ہوجائے کہ ان کے نازک مزاج پر ناگوار گذرے تو لڑائی تیار ہو تی ہے۔بعض لڑائیاں جو سرِ عام ہو رہی ہوتی ہیں۔ان کی وجہ جاننے کی کوشش کریں تو بہت معمولی اور عام سی بات اس کی بنیادہوتی ہے۔ جس کو دونوں میں سے اگر کوئی فریق اس وقت چھوڑ دے تو جھگڑا ختم ہو سکتا ہے۔مگر دونوں اطراف اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے بحث وتکرارجاری ہوتی ہے۔ وہاں موڑپر ٹریک بلاک تھا۔ معلوم نہیں کیا تھا۔مگر ہارن پر ہارن بج رہے تھے گاڑیوں کے بیچوں بیچ آگے جا کر معلوم ہوا کہ رکشہ اور کار کے ڈرائیور آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔وجوہات جاننے کو ایک ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ کار مالک کو رکشہ کے یوں اچانک سے موڑکاٹ کر مین سڑک پر آنے پر سخت اعتراض تھا۔وہ اسے غلط کہہ رہا تھا اور دوسرا ڈرائیور اس کی غلطی کو ثابت کرنے کی کوشش میں بڑھ چڑھ کر بحث کر رہاتھا۔حالانکہ دونوں میں مصالحت کروانے کو راہگیر ازراہِ ہمدری موجود تھے۔مگر پے درپے گاڑیوں کے ہارن بجنے سے دونوں کو اچانک سمجھ آئی۔ رکشہ ڈرائیور نے اپنی شکست تسلیم کر کے وہاں سے رکشہ کو آگے کیا تو بات ختم ہوئی۔ معمولی بات پر اتنا جارحانہ انداز میں ایک دوسرے پر جھپٹنے کوتیار۔ اس چڑچڑے پن کی ہوگی کوئی وجہ جو یہ لوگ بے وجہ آپس میں ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسائے ہوئے تھے۔ ہم ایک پریشان معاشرہ ہیں ۔ہر ایک کی اپنی الجھنیں ہیں پریشانیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ شور مچا کے دل کا غبار نکالتے ہیں۔