آہ رحیم اللہ یوسفزئی صاحب بھی نہیں رہے

پیشہ ورانہ مہارت، دیانت داری اور اعلیٰ کردار کے حامل عالمی شہرت یافتہ صحافی رحیم اللہ یوسفزئی صاحب کی وفات سے یہ خطہ اور ملک ایک عظیم صحافی اور بڑے انسان سے محروم ہوگئے ہیں۔سرخ و سفید رنگت کے حامل اور ہمیشہ صاف و شفاف کپڑوں میں ملبوس رہنے والے رحیم اللہ صاحب مردانہ وجاہت کا نمونہ، صحافت کی دنیا کا چمکتا ستارہ اور پاکستان بلکہ دنیا کے چند مشہور صحافیوں میں شامل تھے۔ ان کی رحلت سب کے لئے بڑا نقصان ہے مگر ان کے آبائی تحصیل کاٹلنگ کے عوام تو اپنے ایک بہت بڑے خیرخواہ، شفیق بھائی اور ہمدرد دوست سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ صحافت میں پیشہ ورانہ مہارت، ایمانداری، بلند کردار، سخت محنت، وقار، شائستگی، اصول پسندی، اعتدال اور بہترین انداز میں حق گوئی کا مجسم نمونہ بن کر سامنے آئے اور قابل رشک شہرت کمائی۔رحیم اللہ یوسفزئی صاحب دہشت گردی، افغانستان، خیبر پختونخوا اور قبائلی خطے کے امور کے سب سے زیادہ قابل بھروسہ تجزیہ نگار تھے۔ وہ روزنامہ جنگ، دی نیوز اور روزنامہ آج کے ساتھ ساتھ کئی بین القوامی جرائد و اخبارات کیلئے بھی کالم لکھتے رہے۔ انہوں نے آخر تک اپنی غیر جانبداری قائم رکھی۔سوویت یونین کے خلاف اسی کی دہائی میں اور نائن الیون اور امریکہ کے افغانستان پر حملے اور قبضے کے بعد یہاں جو جنگیں لڑی گئیں اور جو حالات پیدا ہوئے ان کے دوران انہوں نے افغان امور کے ایک مستند ماہر، دلیر صحافی اور معتدل مزاج تجزیہ نگار کی شہرت کمائی جو مرتے دم تک ان کی پہچان رہی۔ اسامہ بن لادن اور افغان طالبان کے سربراہ ملامحمد عمر کے ساتھ ان کے دو انٹرویوز سے انہیں لا زوال شہرت ملی۔ سوویت یونین کے انخلا ء کے بعد جس طرح ایک بار انہوں نے امریکی صحافی باب ووڈورڈز کے ساتھ کابل کی گلیوں اور سڑکوں پر چلتے ہوئے افغان جنگ، اس کے نتائج اور مستقبل کے امکانات پر جس طرح افغان مزاحمت اور افغانستان بارے تاریخی باتیں کی تھیں، جو اب بھی ویڈیوز کی صورت میں موجود ہیں، وہ انہی کا خاصا تھا۔ وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ صحافی تھے۔ 2004ء میں انہیں تمغہ امتیاز اور 2009 ء میں ستارہ امتیاز ملا۔انہوں نے صحافت میں سخت محنت، اعلیٰ کردار اور رواداری و توازن کے جو معیار قائم کئے ان کی رحلت کے بعد ان کا خلاء صوبے اور ملک میں بڑی مشکل سے پر ہوسکے گا۔ان کی رحلت میرے لئے ذاتی طور پر ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ میں ایسا محسوس کررہا ہوں کہ جیسے میرا اپنا کوئی قریبی عزیز فوت ہوچکا ہے۔میرے ساتھ انہوں نے ہمیشہ تعاون کیا، مجھے عزت دی، رپورٹنگ کیلئے ٹپس دئیے اور پھر مردان سے مختصر وقت کیلئے رپورٹنگ اور پھر کالم نگاری کا کہا۔ انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور کالم نگاری جاری رکھنے کا کہا۔ جب کبھی موقع ملا تو دوسروں کے سامنے بھی میری تعریف کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے 2007 ء میں جب گرمیوں کی تعطیلات میں ان کی مہربانی سے راقم کی دی نیوز پشاور بیورو میں تربیت شروع ہوئی تو اس دوران انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور آج میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے انہیں ایک باوقار، شائستہ، شریف، کم گو، خوش اخلاق اور اعلیٰ ظرف انسان اور نہایت محنتی، نڈر، حلیم اور اعتدال پسند صحافی پایا۔میں دیکھتا رہا کہ کس طرح وہ نیوز سٹوری فائل کرنے والے صحافیوں کو بلاتے، نرمی اور محبت کے ساتھ تحریر میں کمی بیشی کی نشاندہی کرتے، پھر خود ہی جملوں اور الفاظ کو ادھر ادھر کرتے، تدوین کرکے سٹوری کو جاذب نظر بناتے اور اسے صحیح ترین شکل میں اخبار میں چھپنے کے لئے بھیج دیتے۔نیوز سٹوری حاصل کرنے کے لئے محنت کرنا، متعلقہ افراد کا موقف لینا، درست حقائق کی کھوج لگانا اور اس کی تیاری کے دوران مکمل غیر جانبدار رہنا ان کے خیال میں رپورٹرز کے لئے لازمی عناصر تھے۔دہشت گردی اور قبائلی خطے کے حالات کے پیش نظر ان کا کام آسان نہیں بلکہ بہت ہی خطرناک تھا مگر یہ ان کا ہی ملکہ تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بھی بات کرتے تو ان کا لہجہ اور الفاظ ہمیشہ وقار، تمکنت، احتیاط، توازن اور حق گوئی کا بہترین امتزاج ہوتے۔ایک بار میں ان سے ملنے گیا تو ان کے ساتھ دو تین مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔ میں واپس ہونے لگا تو انہوں نے بلایا، ہاتھ ملایا اور ایک جانب بیٹھنے کو کہا۔ اس دوران انہیں بی بی سی کی طرف سے کسی معاملے پر تبصرے کے لئے کال آگئی۔ انہوں نے دو تین بار تبصرہ شروع کیا مگر وہ مہمان چونکہ آپس میں،سرگوشی میں، باتیں کررہے تھے تو رحیم اللہ صاحب کا ردہم خراب ہوجاتا۔ چنانچہ اخلاق اور نجابت کا یہ پیکر کمرے سے باہر چلاگیا۔ دس منٹ بعد وہ سیٹ پر واپس آگئے مگر مہمانوں کو انہوں نے نہ پہلے باہر جانے کا کہا اور نہ واپس آنے کے بعد ان سے کوئی شکوہ کیا۔وہ عام لوگوں اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ انکساری، اعلیٰ ظرفی اور احترام کا سلوک کرتے نظر آئے۔وہ صحافت کے ساتھ سماجی خدمت بھی کرتے تھے۔ انہوں نے علاقے کے غرباء، یتیموں، بیواؤں اور معذوروں کے سروں پر ہمیشہ دست شفقت رکھا کاٹلنگ کے عوام ان سے والہانہ محبت کرتے اور انہیں فخر کاٹلنگ اور فخر پختونخوا کہا جاتا تھا۔