اس وقت افغانستان کے موجودہ حکمرانوں میں وہی کردار شامل ہیں جو 1990ء کی دہائی میں طالبان دور میں برسرِ اقتدار تھے۔ طالبان حکومت کا ڈھانچہ انتہائی دھیان سے بنایا گیا ہے اُور اِسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ طالبان نے اِس مرتبہ زیادہ مصلحت و سمجھوتے سے کام لیا ہے۔ اِس پوری صورتحال میں ملا اخوند کامیابی سے اُبھرے ہیں۔ کئی لوگوں کی پیش گوئی تھی کہ ملا برادر سربراہ ہوں گے مگر وہ ملا اخوند کے نائب بنائے گئے ہیں۔ طالبان جب سب کی شراکت داری سے حکومت بنانے کی بات کرتے ہیں تو شاید اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اکثریت کیلئے قابل قبول حکومت بنائیں گے اور اِسی ایک بات کو ذرائع ابلاغ نے نہیں سمجھا اور اِسے غلط انداز میں پیش کیا جس کی وجہ شکوک و شبہات یا اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ جہاں تک خواتین کو حکومت میں شامل کرنے کی بات ہے تو افغان آئین خواتین کے حقوق کو اِس حد تک تسلیم کرتا ہے کہ خواتین کوئی بھی عہدہ بشمول حکومتی وزیر لے سکتی تھیں ماسوائے صدر کے عہدے لیکن طالبان کے دور حکومت میں ایسا ممکن نہیں اور یہی ایک بات طالبان کے اقتدار کو عالمی سطح پر تسلیم نہ کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹ ہو گی کیونکہ جو لوگ افغانستان کے سماجی تانے بانے پر توجہ نہیں دے رہے اُنہیں عالمی سطح پر تنقید کا سامنا رہے گا اور یہ چیلنج دنیا بھر میں دارالحکومتوں میں احتجاج اور وہاں سے آنے والے بیانات کی شکل میں پہلے ہی جمع ہو رہا ہے۔ امریکی وزارت ِدفاع (پینٹاگون) کا کہنا ہے کہ ”دنیا باریکی سے دیکھ رہی ہے۔“ طالبان تحریک میں شخصیات نہیں بلکہ نظام اہم ہے اور اِن کا بنیادی ہدف یا مقصد بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان میں ’امارات اسلامی‘ کے نام سے ایک مضبوط‘ توانا اور پھلنے پھولنے والا نظام رائج ہو‘ جس میں نہ صرف ملکی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہو بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی ایک ایسی ساکھ رکھے جس سے کوئی ملک اپنے لئے خطرہ نہ سمجھے۔ طالبان فتوحات کے تسلسل میں اِس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ عالمی امدادی ادارے جو افغان حکومت کا قریب 80 فیصد مالیاتی بوجھ اُٹھاتی رہی ہیں اور 20 برس میں جن ممالک نے مجموعی طور پر افغانستان میں کھربوں ڈالر کے ترقیاتی کاموں کی صورت سرمایہ کاری کی ہے وہ سب خیرخواہ ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ذمہ داری ملک کی حیثیت سے آگے بڑھے۔ اَفغان اَمور کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے روز بہ روز معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور مشکل کی اِس گھڑی میں پہلے سے زیادہ کام آنا چاہتے ہیں لیکن ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب افغانستان میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں کے اِکادُکا واقعات بھی سامنے نہ آئیں۔بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس مرتبہ طالبان کو پہلے سے زیادہ موافق حالات ملے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اگر وہ پڑوسی ممالک یعنی ایران اور پاکستان کے ساتھ بھی تجارت کو جاری رکھیں تو ا س سے تباہ حال افغانستان کو معاشی مشکلات سے نجات مل سکتی ہے اور ساتھ جس طرح چین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان کی بحالی میں مدد فراہم کریگا،اس تمام معاملے میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔عین ممکن ہے کہ طالبان بھی اپنی حکومت کو زیادہ قابل قبول بنانے کیلئے حکومت میں طالبان سے باہر شخصیات کو بھی شامل کریں اور اس کے حوالے سے خبریں بھی آرہی ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے افغانستان میں امن کے قیام سے اپنی معاشی ترقی پر بھر توجہ دینے کا موقع ملے گا کیونکہ افغانستان میں بد امنی سے پاکستان بری طرح متاثر چلا آرہاہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک طرف اگر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیا جارہا ہے تو دوسری طرف عالمی برداری کی طرف سے انسانی بنیاد پر امداد فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی ہے جس سے طالبان حکومت کومعمول کے معاملات چلانے میں مدد ملے گی۔