مہنگائی کا سد باب

مہنگائی سے پریشان (خراب حالوں) کیلئے نوید ہے کہ عدالت ِعالیہ (ہائی کورٹ) نے مرغی اور اِس سے متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز ردوبدل یعنی مسلسل اضافے کے رجحان کو اعتدال پر رکھنے کے لئے ہدایات جاری کی ہیں اور اِس ضرورت پر بھی زور دیا ہے کہ مہنگائی کے مصنوعی پن پر قابو پایا جائے جس کیلئے خیبرپختونخوا کے سیکرٹری فوڈ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صنعتی پیمانے پر مرغبانی سے لیکر اِس کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں اور کوئی ایسا طریقہئ کار (فارمولہ) وضع کریں جس سے مرغی‘ انڈے‘ گوشت اور اِس سے بننے والی دیگر مصنوعات کی قیمتوں کو کسی زیادہ سے زیادہ سطح پر منجمد کیا جا سکے گا۔ یعنی سیکرٹری فوڈ‘ کو مرغی کی صنعتی (بڑے) پیمانے پر خرید و فروخت اور اِس کے گوشت سے بنی مصنوعات کی قیمتوں کے کسی مستقل تعین کرنے کا کہا ہے تاکہ آئے روز قیمتوں میں مرغی‘ انڈے یا اِس کے صافی گوشت کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو اور اگر اضافہ ہو بھی تو اُس کا کوئی نہ کوئی منطقی جواز موجود ہو جسے صارفین بھی سمجھیں اور جس کی بنیاد پر عوام میں یہ تاثر عام نہ ہو کہ قیمتوں میں من مانے اضافے کئے جاتے ہیں۔ مہنگائی سے نمٹنے کا درپیش مقدمہ (مرحلہ) اگر کامیابی سے کسی ایسے نتیجے (فیصلے) تک پہنچ جاتا ہے کہ جس کے بعد مرغی انڈے اور پولٹری مصنوعات کی قیمتیں متعین کرنے کا ’متفقہ کلیہ‘ سامنے آتا ہے تو یہ معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ اِس کے بعد دیگر شعبوں کیلئے ایسی ہی ذمہ داریاں دیگر سرکاری محکموں کے منتظمین (سیکرٹریز) کو طلب کر کے دی جا سکیں گی بلکہ دیگر محکموں ارباب اختیارکے کان بھی کھڑے ہو جائیں گے اور اُنہیں علم ہوگا کہ اگر اُنہوں نے مکھی پر مکھی ماری یعنی روایتی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پشاور ہائی کورٹ کے سامنے جوابدہی میں پسینے چھوٹ سکتے ہیں! فی الوقت مرغی انڈے اور پولٹری مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا مرحلہ درپیش ہے اور اِس مقدمے کی آئندہ سماعت کیلئے 16 ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے جسے چیف جسٹس قیصر رشید خان اور سٹس سید عتیق شاہ سن رہے ہیں۔ اِس سے قبل سماعتوں میں عدالت نے مرغی‘ انڈے‘ مرغی کے گوشت اور مال مویشیوں کی افغانستان برآمد پر پابندی عائد کی تھی جس کی وجہ سے عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی تاہم مال مویشیوں کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان اُس عمومی منافع خوری کی روایت کے سبب تھا جس کا مظاہرہ عیدین اور دیگر تہواروں کے موقع پر دیکھنے میں آتا ہے۔اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے متعلقہ ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنروں) کو رواں برس مئی میں ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ مرغی‘ انڈے اور مال مویشیوں کی افغانستان (قانونی و غیرقانونی) ترسیل پر ”پابندی“ عائد کریں لیکن یہاں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ آخر عدالت کو مداخلت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیا مرغی‘ انڈے اور گوشت کیلئے ذبح ہونے والے مال مویشیوں (گائے بھینس اور دیگر حلال چھوٹے جانوروں) پر نظر رکھنا اور وہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں سے متعلق انتظامی امور کی اصلاح از خود کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں؟ جون دوہزاراکیس کے اوائل میں مرغی انڈے اور مال مویشیوں کی افغانستان اسمگلنگ روکنے کیلئے مختلف اضلاع کی انتظامیہ کو واضح ہدایات جاری کرنے کے باوجود یہ عمل جاری رہا۔ مہنگائی کا کوئی ایک سبب یا محرک نہیں بلکہ اِس کے اسباب کثیرالجہتی عوامل کا نتیجہ (حاصل) ہیں۔ مہنگائی میں اگر ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی جیسے رجحانات کارفرما ہیں تو اِس میں طرزحکمرانی کی خرابیوں کا بھی پورا (یکساں) عمل دخل ہے۔