کیا عالم تھا کبھی پسلی سے ٹیس ابھرتی تو کوئی پروا نہ ہوتی۔ کبھی سر میں درد ہوتا بلکہ پورا جسم بھی درد کرتاہوتو ہماری بلا کو بھی ڈر نہ تھا۔ وہ حسرت موہانی کا شعر یاد آتا ہے ”اگرچہ میں ہمہ تن درد ہوں ولے حسرت۔ کوئی پوچھے کہ کہاں ہے بتا نہیں سکتا“ وہ زمانہ تھا کہ درد کی کیفیات ہوتیں تو کسی کو کیا بتلانا۔ مگر اب توگذری ہوئی عمر کے ساتھ معاملات اور سے اور ہوئے جاتے ہیں۔ اب تو پنڈلی میں کڑول پڑتا ہے تو جان منہ کو آنے لگتی ہے۔جانے کیوں بل پڑا۔کہیں کسی رگ میں خون تو نہیں جم گیا۔ سر میں درد ہو تو دل میں سو سو طرح کے خیالات جو کنڈلی مارے ہوئے سانپ کی طرح موجود ہوتے ہیں۔وہ اپنی سی ہل چل میں کلبلانے لگتے ہیں۔ کیونکہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ وہ بے خوفی جو اپنے جسم کے حوالے سے ہوتی ہے نہیں رہتی۔ ہر ٹیس پر کہ جگر سے اٹھے کہ دل سے بندہ ہائی الرٹ ہو تاہے۔”مشتاقِ دردِ عشق جگر بھی ہے دل بھی ہے۔کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ“۔ سو اب تواس شعر کی سی کیفیت ہے۔ جب تک درد میں کمی نہ ہو اور پورے طور سے درد و اندوہ ختم نہ ہو بندہ بے سکون رہتاہے۔ پھر ہر عمر کے اپنے تقاضے اندیشے اور اپنے سے خوف ہوتے ہیں۔اب تو ذرا معدے کے درد کو بھی دل کا درد جان کر سو حیلے بہانوں سے اس کو ختم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ جانے کیا ہوتا ہو۔ مگر اپنی سی ڈاکٹری کرنے میں کیا حرج ہے۔جسے لوگ فرسٹ ایڈ کا نا م دیں۔اسے ہم اپنا نیم حکیم کہتے ہیں۔ پھر کمال یہ ہے کہ تجربہ بڑا استاد ہے۔اس نیم حکیم ہونے کی چالاکی سے بندہ ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔گھر میں مشورہ دینے والے اور مفت مشورہ دینے والے عزیز و اقربا بھی تو بہت ہوتے ہیں۔ پھر سب سے بڑا معالج آج کل فیس بک ہے۔ جس پر خطرناک سے خطرناک بیماری کا علاج چٹکی بھر پاؤڈر کو کڑوا گھونٹ کر کے نگل لینے میں بتلایا جاتا ہے۔بازومیں کیوں درد ہے۔ دل میں وسوسے گھر کر لیتے ہیں۔موسم کی تبدیلی کو ہم نہیں دیکھتے اور فٹ سے ہسپتال پہنچ کر اپنا سا صحت مند منہ لے کر گھنٹے بھر میں واپس آ جاتے ہیں۔رات کو سوتے ہوئے بازو گردن تلے آ جاتا ہے۔جو بعد میں یاد آتا ہے کہ جی ہا ں ہم نے خود رکھا تھا۔پھر بعض لوگ گولی بھی تو نہیں کھاتے۔ ڈاکٹر تین ٹائم بتلاتا ہے۔ مگر وہ خود ساختہ مریض تین کے بعد ایک گولی لے کر اپنے تئیں ڈاکٹر بن کراپنا علاج خود کرتے ہیں۔اس سے وہ درد بھی نہیں جاتا اور دل میں سے اندیشہ کے مکڑی کے جالے بھی صاف ہو نہیں پاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بندہ نفسیاتی مریض بننا شروع ہوجاتا ہے۔پھر اگر کسی کلینک میں پہنچا تو وہاں سے اب کے اس کودماغی سکون کی گولی عنایت کی جاتی ہے۔جس سے اس کو واقعی میں آرام نہیں آتا۔ تو وہ آدھی کے بجائے پوری اور پوری کے بجائے دو دو گولیاں نگل لینے میں اپنی زندگی کابچاؤ سمجھتا ہے۔آج تو کسی بھی درد کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کب ٹھیک ہوگا۔ یہ درد ہوا کیوں۔ کہیں اور کوئی مسئلہ تو نہیں۔ کہیں وہ معاملہ تو نہیں جس کا میں نے اندازہ لگایا تھا۔ مگر جوانی کے دن یاد آئیں تو بندہ کیا کرے۔ جب نہ تو کوئی درد ہوتا حالانکہ ہو تا تھا اور ہو سکتا تھا مگر محسوس نہ ہوتا۔ کیونکہ درد کے دو علاج ہیں ایک تو گولی اور ایک برداشت کرلینا۔ ہم جوانی میں اپنے زور پر دردوں کی ٹیسوں کو برداشت کرلینے کی اور درد کی لہر کے اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس کو اگنور کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اب بچوں کودیکھتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ان کو خدا بچائے کہیں ٹیس ہی نہیں اٹھتی۔اپنا کھیلتے کھالتے رہتے ہیں۔ فوراً سے اٹھ گئے۔ جلدی سے بیٹھ گئے۔مگر اب تو ہم سے یہ کام بھی جلدی میں نہیں ہوتے۔ دیر سے بیٹھیں گے اور دیر سے وہ بھی کسی کے سہارے اٹھیں گے۔برداشت بھی ایک نعمت ہے۔”درد کاحد سے گذرنا ہے دوا ہو جانا“بعض مریض ایسے بھی ہیں کہ بغیر ڈاکٹر کی ہدایت کے پرانے نسخوں کے زور پر صبح و شام ہتھیلی بھر کے مختلف بیماریوں کی گولیاں نگلتے ہیں بلکہ کھاتے ہیں یا یوں کہیے چباتے ہیں۔ یہ سب نا سمجھی کی بنا پر ہوتا ہے۔حالانکہ ایک ہی بیماری کیلئے ان کے پاس تین الگ الگ ناموں کے پلتے موجود ہوتے ہیں جن میں سے وہ ایک ایک گولی چن کر پانی کے گلاس سے معدے میں اتارلیتے ہیں۔ ان کو ہزارسمجھاؤ کہ میاں ان تینوں گولیوں کاجو آپ نے اپنے اندر انڈیل دی ہیں ایک ہی فارمولا ہے۔خواہ مخواہ آپ فالتو کی گولیاں کھاتے ہیں بلکہ چبا چباکر کھاتے ہیں۔مگر وہ نہیں مانیں گے۔اوپر سے حکیم کی ہاضمہ کی دوا بھی پی لیں گے۔پھکیاں چورن اور مختلف قسم کے سفوف اور پاؤڈر صبح و شام کے الگ اور دوپہر کے جدا ان کی دواؤں والی پوٹلی میں پڑے ہوں گے۔