محض دشمنی

افغان صورتحال اُس وقت تک ہمسایہ ممالک کیلئے تشویش کا باعث بنی رہے گی جب تک افغانستان میں امن و امان کا دور دورہ نہیں ہو جاتا اور نئی باقاعدہ حکومت اپنا کام شروع نہیں کردیتی۔ طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کے اعلان کے بعد معاملات درست سمت میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے افغان حکومت کو بالعموم تمام بین الاقوامی برادری اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کا تعاون درکار ہوگا جس کیلئے خود طالبان بھی کوششیں کررہے ہیں اور پاکستان کی بھی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والے نئے سیاسی انتظام کو عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی تائید و حمایت حاصل ہو تاکہ معاملات جلد سدھر سکیں۔ پاکستان کی طرف سے بارہا یہ کہا جاچکا ہے کہ پُرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد ہے اور اس کے مقصد کے حصول کیلئے پاکستان ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں تشویش کا باعث بننے والی بات دیگر شدت پسند تنظیموں کا منظر عام پر آنا  ہوگا‘ جو طالبان کیلئے بھی پریشانی کا باعث  بن سکتے ہیں۔ اس منظرنامے میں دنیا کی نظریں پاکستان پر ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ افغانستان امن و استحکام کیلئے اگر کوئی ملک سب سے زیادہ اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ اسی لئے افغانستان کے دیگر ہمسایہ اور کئی مغربی ممالک کے علاوہ عالمی ادارے بھی پاکستان کو اہمیت دے رہے ہیں اور اس سے تعاون کیلئے اپیل کررہے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان نے افغانستان کے چھ ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کی۔ اس اجلاس میں چین‘ ایران‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ اور خصوصی ایلچیوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان طالبان کے قبضے کے بعد کی صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ تعاون کی توقع رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں نئی افغان حکومت سے بھی تعاون کیا جائے گا اور افغانستان میں انسانی المیے اور معیشت کو تباہی سے بچانے کی کوشش کی جائے گی۔اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ ہمسایہ ممالک باہمی مفادات کے تحفظ کیلئے مل کر کام کریں گے اور وزرائے خارجہ فورم کو ایک مستقل اور مؤثر حیثیت دی جائے گی۔ اس سلسلے کے آئندہ اجلاس کی میزبانی ایران کرے گا۔ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال سے متعلق پاکستان نے ایک اور اہم اجلاس کی بھی میزبانی کی‘ جس میں افغانستان کے آٹھ ہمسایہ ممالک کے خفیہ اداروں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس کے میزبان انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تھے۔ اجلاس میں پاکستان سمیت چین‘ ایران‘ روس‘ قازقستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان کے انٹلی جنس چیفس شریک ہوئے۔ اجلاس کے دوران افغانستان کی سکیورٹی صورتحال پر تبادلہئ خیال کیا گیا جبکہ خطے میں دیرپا امن و سلامتی کی صورتحال پربھی بات چیت کی گئی۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ریجنل انٹلی جنس اداروں کے سربراہوں کے درمیان یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے مربوط تعاون (کوآرڈینیشن) کے ساتھ ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ اجلاس میں غیر ضروری بھارتی سرگرمیوں پر پاکستانی تحفظات پر بھی غور کیا گیا۔علاؤہ ازیں علاقائی سلامتی‘ دیرپا امن و استحکام کے قیام پر مشاورت کی گئی اور یکساں لائحہ عمل کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے یہ اجلاس اور کوششیں افغانستان میں قیامِ امن کے لئے پاکستان کے خلوص کا اظہار ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان نے نہ صرف افغانستان کے اندر موجود گروپوں سے تعاون کیا بلکہ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی بھی مدد کی لیکن افغانستان میں امن کی کوششوں پر سازشوں کے سائے ہیں‘ جنہیں یکساں طور پر نظر میں رکھنا بھی ضروری ہے۔