بے خوفی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔اب اس قدر بھی نڈری کہ عقل حیران ہوتی ہے۔وہ اس لئے کہ کورونا کی شدت میں اضافہ ہے۔پھر دوسری طرف عوام کا اس سے اس قدرعادی ہو جانا کہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر اس کے ساتھ کھیلنا۔ جیسے کوبرا سانپ کے ساتھ سپیرا کبھی اٹھکیلیاں کرتا ہے۔وہ اپنی مہارت کے غرور میں ہوتا ہے۔مگر پھن پھیلائے ناگ کا اعتبار کہاں۔ جانے کس وقت بے خبری کے عالم میں ڈس لے۔ہمارا بھی اب سپیرے جیسا حال ہو چکا ہے۔مجال ہے کہ کورونا کے نام پر اب کسی کے ماتھے پر پسینہ آتا ہو۔کسی کا دل دھک دھک کرتا ہو۔ایس او پیز تو خیر کیا ہوتے ہیں یاکیا ہوتا ہے اس بارے کسی کو جاننے کی ذرا پروا ہی نہیں۔ہوگا کوئی ضابطہ۔ ہاتھ سے ہاتھ ملتے ہیں دل سے دل ملتا ہے۔کاندھے سے کاندھا ملایا جاتا ہے۔ ماسک تو خیر کیاہوگا۔بس سرکاری دفتروں اور نجی فرموں میں کہیں اس کی پابندی کرنی ہو تو کرلی جاتی ہے۔وہ بھی بہ امر مجبوری ہوتا ہے۔کسی کو ماسک کی بھی پروا نہیں۔ اب لوگ ماسک کے ساتھ بھی عادی ہو چکے ہیں۔ ماسک پہن پہن کر سانس کے بند ہونے کاشکایت کرتے ہیں۔پھر اتار لیتے ہیں۔کہیں کسی دفتر کے مین گیٹ پر اگرچوکیدار نے بغیر ماسک کے دھرلیا تو خوشامد کر کے خود گیٹ کیپرہی کا ماسک بطور ادھار پہن کر جب واپس اسی گیٹ سے نکلتے ہیں تو اس کو واپس کر دیتے ہیں۔ سیکورٹی والا بھی اس صورتِ حال سے آشنا ہو چکا ہے۔عام آدمی اس قدر کہ لاشوں کے انبار دیکھ کراپنے پرایوں میں کورونا کے کارن میتوں کاسلسلہ دیکھتے بھالتے انجان بن کر زندگی کو گذار رہا ہوتا ہے۔مگر زندگی بھی ہنس کرخود اسی کو گذارنے کے درپے ہوتی ہے۔مصیبت یہ ہے کہ کورونا کاوائرس اب بہت چالاک ہو چکا ہے۔یہ بہت سے بہروپ بدلتا ہے۔جو علامات اس کیلئے مخصوص کر دی گئی ہیں۔ان سے ہٹ کر چلنے لگا ہے۔جہاں جہاں اس پر یقین ہے وہاں اس پر شک کرنے والے بھی اتنی تعداد میں موجود ہیں۔اب اس نے جس کو کاٹ لیا سو کاٹ لیا۔ جو اس کے نرغے میں آگیا سو آ گیا۔مگر ہمارے بھائی بندسب دیکھتے سنتے آنکھیں موندے کان بند کئے گھومتے ہیں۔پہلے تو جگہ جگہ ماسک فروخت ہوتے تھے۔مگر اب تو ماسک بیچنے والے کم کم نظر آنے لگے ہیں۔جہاں دیکھوکوئی پبلک میٹنگ یا عوامی مقام ہو۔ ایک دو تین نے اگر ماسک پہنا ہو تو درست ہوگا۔وگرنہ تو ماسک کی رسم ترک کر دی گئی ہے۔دوسری طرف پندرہ سال کے بچوں کو بھی ویکسین لگانے کی سن گن ہے۔پھر اتوار کے روز کودوسری خوراک کے لگانے کیلئے مخصوص کر دیا گیاہے۔ کہا گیا ہے کہ اگرکسی کو موبائل ایس ایم ایس نہ بھی آئے تو اس کوچاہئے وہ دوسرے ویکسین انجکشن کیلئے اپنے مقررہ وقت کے بعد ہسپتال جاکر یہ احتیاط کا فرض نبھا آئے۔پہلے گاؤں وغیرہ میں ماسک کی پابندی نہ تھی۔مگر اب تو شہروں میں بھی ماسک پہننے والے بہت کم گھومتے ہوئے مل جائیں گے۔بعض کا خیال ہے کہ میں نے چونکہ ویک لگا رکھی ہے۔ اس لئے مجھے اس وائرس سے بے خوفی ہے۔حالانکہ جس نے اگر دو ڈوز بھی لگا رکھی ہیں اس کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔مگر جنھوں نے ویکسین نہیں لگائی ان کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔احتیاط ضروری ہے۔پھر جس میں جاں کا زیاں ہو اس معاملے میں تو خاص طور پر خیال کرنے کا موقع ہوتاہے۔ جس کوہم لوگوں نے جانتے بوجھتے کورونا کے حوالے سے اگنور کر رکھا ہے۔لوگ بھی کیا ہیں۔ بس کورونا کوقبول کرلیا ہے۔اچھے پڑھے لکھے اور بڑے سرکاری عہدوں پر براجمان شہری بھی کورونا کے معاملے میں لاپروا ہیں۔ اگرویک نہیں لگا رکھی تو کتراتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اگر سر پر آگئی کہ تنخواہ بند ہونے لگے تو پھر سوچیں گے۔ پھر یہی لکھے پڑھے لوگ جب کسی چیز کی پابندی نہ کریں تو عام ان پڑھ جوہیں اور وہ جو بیماریوں کے اتار چڑھاؤ سے واقفیت نہیں رکھتے وہ توپھر کسی چیز کی پابندی قبول نہیں کرتے۔ جناز ے میں بڑے بڑے افسر شریک ہوں گے مگر ماسک ایک کے منہ پرموجود نہیں ہوگا۔جب یہ لوگ مثال بنیں گے تو معاشرہ اچھا بھی ہوسکتا ہے اوربرا بھی۔میں تو اکثر عوامی رائے جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ خواہ کوروناہویا کوئی اورمسئلہ چل رہاہو۔کیونکہ مجھے توکالم لکھنا ہوتا ہے۔معلومات لینا میرا کام ہے۔جیسے ڈاکٹرکسی مریض کا بخار چیک کرنے کواس کو دانتوں تلے رکھنے کو تھرما میٹر تھما دیتا ہے۔اسی طرح عوامی رائے جان کرمیرے ذہن کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔پھر کسی مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ ہر ایک کے پاس اپنی طرح کی معلومات ہوتی ہیں۔ جو اس نے اپنے ذرائع سے حاصل کی ہوتی ہیں۔ اس لئے مختلف آرا کی روشنی میں کسی مسئلے کے بارے میں جانکاری حاصل کرلینا اپنے لئے فائدہ مند ہوتا ہے۔اس سے قلم میں روانی پیدا ہوتی ہے۔موقع ملے تو اگلے سے پوچھ لیتا ہوں۔یار بات سنو کورونا ہے بھی سہی کہ نہیں۔اس کے مختلف جواب سن کر پھرجو جواب بھی ہو اس پران کی وکیل کے جیسی بحث سن کر لطف اٹھاتا ہوں۔مجھے عوام کے مزاج کی گرمی اس قسم کے تھرمامیٹرسے حاصل ہونے لگتی ہے۔ماسک نہ پہنے ہوئے بعض پیارے تو صاف انکار کر دیتے ہیں اور بعض ماسک نہ پہنے ہوئے فرماتے ہیں یار کورونا ہے تو سہی۔