سیا سی بیداری کی آزما ئش 

کنٹونمنٹ بور ڈ کے انتخا بات کو پا کستان میں سیاسی بیداری کی آزما ئش قرار دیا جا سکتا ہے یہ انتخابات ایسے وقت پر ہوگئے  جب بلدیاتی انتخابات میں چھ مہینے رہ گئے ہیں عام انتخا بات میں دو سال رہتے ہیں ایسے وقت پر ملک کی تما م چھا ؤنیوں میں بورڈ وں کے انتخا بات کا انعقاد بہت مشکل فیصلہ تھا حکومت نے بڑی سوچ بچار کے بعد انتخا بات کی تاریخ کا اعلان کیا اور خیر سے انتخا بات ہو گئے۔ اگلے چند دنوں میں کنٹونمنٹ بورڈوں کے منتخب نما ئندے حلف اٹھا کر کا م شروع کرینگے یہ درحقیقت سیا سی بیداری کی آزمائش تھی الیکشن کے دن ہم نے پریس کلب کے ہا ل میں بیٹھ کر گزارا۔ٹیلی وژن پر گھنٹے گھنٹے کی خبریں آرہی تھیں سوشل میڈیا پر بھی ہرگھنٹے کی خبریں تقسیم کی جا رہی تھیں ان خبروں میں کراچی سے لیکر کوئٹہ‘ سیالکوٹ سے لیکر پشاور تک ہر حلقہ انتخا ب سے‘ ہر وارڈ اور ہر پو لنگ سٹیشن سے سیا سی پارٹیوں کے ورکروں کے درمیان ہاتھا پا ئی اور گا لم گلوچ کی باتیں آرہی تھیں پو لیس کے ہاتھوں کار کنوں کی گرفتا ریاں دکھا ئی جا رہی تھیں ان خبروں پر تبصرہ ہو رہے تھے ذرائع ابلا غ پر جو تبصرے ہورہے  تھے ان میں ہمارا کوئی حصہ نہیں تھا البتہ پریس کلب کی حد تک ہم بھی اپنے تبصرے کر رہے تھے ایک سینئر اخبار نویس اپنے نما ئندوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے دس بارہ فو ن کا لیں سننے کے بعد انہوں نے سرد آہ بھر تے ہوئے کہا  سیاسی بیداری کب آئے گی، ہماری سیا سی جما عتیں انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے تیا ر نہیں ہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے سیا سی کا رکن نے اخبار نویس کے جواب میں کہا کہ یہ قصور سیا سی کار کنوں کا نہیں سیاسی جما عتوں کے سر براہوں کا قصور ہے ہمارے ہاں 15قابل ذکر سیا سی جماعتوں کے تمام لیڈر ایک دوسرے کو سیا سی مخا لف سے زیا دہ ذا تی دشمن قرار دیتے ہیں جا نی دشمن قرار دیتے ہیں لیڈر کی تقریر کو اس کے کار کن اپنے لئے نمو نہ اور مشعل راہ سمجھتے ہیں چنا نچہ جس کار کن کے ہاتھ میں ما ئیک آجا تا ہے وہ مخا لف پر بمبا ری شروع کر تا ہے اچھا مقرر اور اچھا کارکن اس کو سمجھا جا تا ہے جس کی زبان تلخ ہو جس کے لہجے میں کڑواہٹ ہو اور جو مخا لف کو جی بھر کر طعنے دیتا ہو‘ ہمارے ایک دوست نے لقمہ دیا اگر یہ حا لت رہی تو بلدیا تی انتخا بات کس طرح ہو نگے اور پھر عام انتخا بات کا کیا ما حول ہو گا؟ بات دل کو لگی ایک اخبار نویس نے کہا بلدیا تی انتخا بات بھی ہو نگے عام انتخا بات بھی ہو نگے۔ مگر کس حال میں ہونگے یہ سب کو معلوم ہے، ایک دوسرے پر الزامات ہوں گے، پولنگ سٹیشنوں پر ایک دوسرے سے تکرار ہوگی، اوربات ہاتھا پائی تک پہنچ جائیگی‘ ہمارے ایک دوست نے پوچھا اس کا حل کیا ہے؟ سیا سی بیداری کہاں سے آئیگی؟ بلی کے گلے میں گھنٹی کون با ندھے گا؟ تھوڑی دیر کیلئے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر سینئر صحا فی نے کہا اس کا حل یہ ہے کہ بار بار انتخا بات کرائے جا ئیں بلدیا تی اداروں کی مدت 3سا ل ہو نی چا ہئے صو با ئی اسمبلیوں کی مد ت 4سال اور قو می اسمبلی کی مدت 5سال ہو بار بار انتخابات ہو نگے تو کار کنوں کی سیا سی تر بیت ہو جائیگی وہ سیا سی بیداری کی آزما ئش پر پورے اتر ینگے۔