پھر یہ ہر جگہ ہے۔اس حوالے سے ہمارا شہریونہی نامور ہوا جاتاہے۔پھرشہربھی تو پھیل رہاہے۔ہر گاہ اور ہر روز اس میں ترمیم و اضافہ کی سبیل ہے۔اسی لئے تو یہاں معاملات ہاتھ تلے آنے کے بجائے ہاتھوں سے نکلتے جاتے ہیں۔آئے روز شہرکی وسعت میں مزید توسیع ہوئی جاتی ہے۔مگر انتظامی حوالے سے وہی پرانا پن ہے جو نیا نہیں کیا جاتا۔ ٹریفک کا معاملہ ہے اور اس پر سرکاری پیادوں کا فل کنٹرول نہیں ۔ان کا بس چلتا نظر نہیں آتا اور بس ہے کہ کوئی بھی ہو شہرکے اندرون رش میں دوڑتی بھاگتی نظر آتی ہے۔ نفری زیادہ ہوئی۔مگر ہمارے شہریوں کی سوچ تبدیل نہ ہوئی۔سمجھ زیادہ نہ ہوئی۔کاش ٹریفک کا مضمون ہائی کلاسوں میں پڑھانے کو رکھ دیا جائے۔ آپ کسی کو ٹریفک لائسینس دیتے وقت ٹریفک کے رول اصول کیا سمجھائیں گے۔ اگر یہ سبجیکٹ سکول کالج میں پڑھایا جائے توکیا اچھا ہو۔ پھر وقت آنے پر اس کا امتحان لیا جائے تو یقین ہے ہمارے ہاں شہری ٹریفک کے مسائل کوسمجھنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جیسے ویکسین لگوانے کیلئے زور دیا جارہا ہے۔کیونکہ نہ لگانے میں جان کا خطرہ ہے۔اسی طرح ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنے سے بھی تو جان کا زیاں ہے۔سو اس کو بھی سنجیدہ طور پرشہریوں کے دل و دماغ میں اتارنا چاہئے۔۔اس شہرکی وسعت اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت کو دیکھ کر دل میں اس ذمہ داری کا خیال زیادہ سے زیادہ آنا چاہئے۔مگر ہم لوگ اس طرف کہاں توجہ دیتے ہیں۔بلکہ ہم تو اس کے قائل ہی نہیں کہ اپنی سوچ کا رخ اس جانب موڑ نا کس قدر اہم ہے۔ہمیں تو بس اپنا راستہ نکالنا ہے۔کوئی سوراخ کیوں نہ ملے ہم نے گاڑی وہاں سے نکال کر اپنے راہ نکالنی ہے۔یہ کتنی نادانی ہے۔مگر اس پر ہم لوگ یوں کاربند ہیں جیسے یہ ہمارے لئے بہت ضروری ہو۔جیسے ہماری نجات اسی راستے میں ہے گذشتہ چند ماہ سے اس ضرورت کومحسوس کیا گیا۔کے پی صوبہ کے ٹریفک پولیس کا ایک ایف ایم ریڈیو قائم ہو گیا۔روز اس کی نشریات سنی اور پوری دنیا میں یو ٹیوب پر دیکھی جاتی ہیں۔اب ٹریفک کے سب سے اہم اور اولین اصول ہی کو ہم نہیں سمجھتے۔ وہ اصول یہ کہ ہم اپنے ہاتھ کوپہچانیں۔مگر ہم تو اپنے آپ ہی کو نہیں پہچانتے تو کسی دوسرے کیا پہچانیں گے۔پھر وہ بھی ٹریفک کا اصول۔یہ تو ہمارے لئے شاید سبکی کا مقام ہو کہ ہم اس طرف توجہ دیں۔ سڑک پر ہمارا بایاں ہاتھ ہے۔خواہ سڑک دو رویہ ہو۔ مگر ہم ایک روسڑک پر بھی اپنا بائیاں ہاتھ چھوڑ کر دائیں ہاتھ میں گھسے ہوتے ہیں۔جس سے روزانہ کی بنیاد پرحادثات جنم لیتے ہیں۔زخمی ہوتے ہیں اور اموات ہوتی ہیں۔مگر ہم مجال ہے کہ باز آتے ہوں۔ موبائل کے وٹس ایپ پر ہمیں ان حادثات کی موویاں تک روزموصول ہوتی ہیں۔مگرہم عبرت کے سامان کو دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔ہمارا ایک مسئلہ اوور سپیڈہے۔جہاں بیس کی رفتارسے جانا ہو وہاں چالیس کی رفتار کو اپنا لیتے ہیں۔جہاں چالیس کی رفتار سے کھلی سڑک پرجانا ہو وہاں خوب سپیڈیں مارتے ہیں۔کسی کو ٹھوک دیا یا کسی نے ہماری گاڑی کو ٹکر مار دی۔ یہ تو بیش قیمت گاڑیاں ہیں۔جن کے تلوے اور زمین کے درمیان چند انچ کا فاصلہ ہوتا ہے۔وہ اپنی گاڑی کے خراب ہوجانے کے خوف کے تحت گاڑی کو رش کے میدان میں یا اندرون گلی محلہ گلیوں میں آہستہ چلائیں گے۔ وگرنہ ان کا بس چلتا تو یہ یہاں بھی تیز رفتاری سے گذر جاتے۔جیسے ویرانوں میں جھپاک سے سنا ہے کہ پریوں کے تخت گزرتے ہیں۔ ہیلمٹ کا نام لو تو بعض کارگزاران ِ سڑک کے برق رفتاروں پر بجلی سی گر جاتی ہے۔وہ ہیلمٹ کو اگر ساتھ لیں تو بہ امرِ مجبوری لیں گے۔ وہ ہیلمٹ نہیں پہنیں گے۔ مگر ساتھ جنگلے میں پھنسا کر گھومیں گے۔جہاں کہیں ٹریفک سارجنٹ کو دورسے دیکھا ہیلمٹ پہن لیں گے۔گھر سے اگرنکلیں تو پہلے دیکھنا چاہئے کہ میرے دونوں آئینے کام کر رہے ہیں کہ نہیں۔جن سے بندہ دورانِ ٹریفک پیچھے آنے والی گاڑیوں کو دیکھتا ہے۔دیکھنا چاہئے میرے دونوں اشارے کام کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے۔پھر اس پر بھی توجہ رکھنا ہوگی کہ پٹرول ضرور چیک کریں۔اس کے بعد گھر سے قدم باہر نکالیں۔کیونکہ شہرمیں آپ اکیلے ہی نہیں گھومتے۔بلکہ آپ کی طرح کے اور شہری بھی شہرمیں پیدل یا رکشہ یا چنگ چی موٹر سائیکل اور دوسری گاڑیوں میں سوار ہو کر جاتے ہوں گے۔