اخلاقی ذمہ داری

افغانستان میں معیشت و معاشرت کی بحالی اور نئی حکومت کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کیلئے عالمی سطح پر جاری کوششوں کا نتیجہ سامنے آیا ہے جس کے مطابق عطیہ دہندگان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی مدد کیلئے ایک ارب دس کروڑ ڈالر سے زائد عطیات دیں گے کیونکہ افغانستان میں غربت و افلاس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بیرونی امداد معطل ہے اور اِن معاشی مشکلات کی بنا افغانوں کی بڑی تعداد کے پاس سوائے ہجرت کوئی دوسری صورت نہیں رہی۔ ماضی میں افغانستان سے داخلی و خارجی نقل مکانی امن و امان کے خراب حالات کی وجہ سے کی جاتی تھی لیکن آج صورتحال مختلف ہے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے سے امن و امان کا دور دورہ تو ہے لیکن صرف امن و امان کافی نہیں اور افغانستان کی اقتصادیات کو بحال کرنے کی ضرورت آ پڑی ہے۔ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان کیلئے مالی امداد اکٹھا کرنے کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کتنے ممالک اس اپیل کے ردعمل میں عزم کا اظہار کریں گے۔ اقوام متحدہ نے افغانستان کی اہم ضروریات پوری کرنے کیلئے ساٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی درخواست کی تھی۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ دہائیوں کی جنگ اور تکالیف کے بعد افغان شہری ’شاید سب سے مشکل‘ لمحات کا سامنا کر رہے ہیں اور وہاں اشیائے خوردونوش ستمبر (رواں ماہ) کے اختتام تک ختم ہوسکتی ہے۔ اِس صورتحال میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افغانی بھوک کے دہانے پر کھڑے ہیں۔امریکہ نے طالبان پر گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ جس کے بعد اربوں ڈالرز کی امداد اچانک بند کردی گئی تھی تاہم جنیوا میں عطیہ دہندگان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بیس سال گزارنے کے بعد وہاں کے عوام کی مدد جاری رکھنا ہماری ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک چین اور پاکستان پہلے ہی مدد کی پیش کش کر چکے ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ (مشل بیچلیٹ) نے مغرب کے چند خدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جب تک افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال معمول پر نہیں آئے گی اُس وقت تک عالمی ادارے اور ممالک افغانستان کی مدد سے ہچکچاتے رہیں گے۔ چین کی جانب سے گزشتہ ماہ تین کروڑ دس لاکھ ڈالر مالیت کی اجناس اور صحت کی سہولیات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے علاوہ تیس لاکھ کورونا ویکسین بھی بھیجنے کا کہا گیا۔ اِسی طرح رواں ہفتے پاکستان نے ادویات اور اشیائے خورونوش افغانستان بھجوائی ہیں اور بیرون ملک موجود منجمد افغان اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے بھی امدادی اشیا سے بھرا ہوا ایک کارگو ہوائی جہاز بھیجا گیا ہے اور اِس پوری صورتحال میں دنیا پاکستان کے اِس مطالبے کو سمجھ رہی ہے جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہراتے ہوئے افغان شہریوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔امریکہ کی افغانستان میں دلچسپی اور سرمایہ کاری کے بارے میں براؤن یونیورسٹی‘ نامی تحقیقی ادارے نے دستاویزی تفصیلات (رپورٹ) جمع کی ہیں‘ جو جامعہ کی ویب سائٹ (brown.edu) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں 7ہزار 300دنوں پر مشتمل 20سالہ جنگ اور قومی ترقی کے نام پر یومیہ 29کروڑ ڈالر جیسی خطیر رقم خرچ کی ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں گزشتہ بیس برس میں 2ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے۔ امریکی میڈیا کے کئی بڑے اداروں نے اس رپورٹ کو نمایاں حیثیت دی ہے جس میں کہا گیا کہ اس رقم سے ’مختصر تعداد پر مشتمل نوجوان انتہائی امیر افغانی بن گئے‘ ان میں سے بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کی حیثیت سے کام شروع کیا اور اور کروڑ پتی بن گئے۔ امریکی نیوز چینل سی این بی سی نے یونیورسٹی کے نتائج پر اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’ٹھیکیداروں (کنٹریکٹرز) کی وجہ سے بڑے پیمانے پر افغانستان کیلئے مختص امدادی رقومات میں بدعنوانی ہوئی‘ جو اَمریکہ کی افغانستان میں شکست کی وجہ بھی بنا ہے اور یہی محرک رہا کہ طالبان کو ہر صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے‘ افغان فوج اور پولیس جیسے مسلح اور تربیت یافتہ قومی اداروں کو تحلیل کرنے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے میں صرف 9 دن لگے۔ امریکہ اور اِس کے اتحادی یورپی ممالک افغانستان کو ’اخلاقی ذمہ داری‘ تو سمجھتے ہیں لیکن وہ طالبان کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی افغانستان میں ’امارات ِاسلامی (اسلامی حکومت کا قیام)‘ عملاً دیکھنا چاہتے ہیں‘کہ یوں امریکہ کو افغانستان کے محاذ پر ایک نہیں بلکہ دو محاذوں پر شکست ہو گی۔ اگر افغانستان سے متعلق کوئی اخلاقی ذمہ داری محسوس کی جا رہی تو وہ افغان اثاثوں کی ادائیگی اور افغانستان سے چوری شدہ وسائل کی واپسی کی صورت زیادہ بہتر انداز میں ادا کی جاسکتی ہے۔