مالی سال دوہزاراکیس پاکستان سٹاک مارکیٹ کے لئے بہترین سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال پاکستان سٹاک مارکیٹ سے کمپنیوں نے ریکارڈ سرمایہ حاصل کیا ہے۔ کمپنیوں نے حصص کی اوّلین عوامی فروخت‘ رائٹ شیئرز اور بانڈز کی مد میں 80 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ اکٹھا کیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں گزشتہ پانچ سال میں اُنیس کمپنیوں کا اندراج ہوا جبکہ دوہزارسترہ سے اب تک اٹھائیس کمپنیاں ڈی لسٹ ہوچکی ہیں مگر سٹاک مارکیٹ میں کمپنیوں کے اندراج کے حوالے سے مالی سال دوہزاربیس اکیس بہت کامیاب سال رہا۔ اس سال آٹھ کمپنیوں کا اندراج ہوا اور ان کمپنیوں نے بیس ارب سترہ کروڑ روپے کا خطیر سرمایہ سٹاک مارکیٹ سے حاصل کیا۔ سال دوہزاردس میں بھی سٹاک مارکیٹ میں آٹھ نئی کمپنیوں کا اندراج ہوا تھا مگر وہ صرف چھ ارب باسٹھ کروڑ روپے حاصل کرسکی تھیں۔ بعدازاں دوہزارسترہ میں پہلے سے زیادہ بارہ کمپنیاں درج ہوئیں مگر ان کمپنیوں نے صرف تین ارب نوے کروڑ روپے کا سرمایہ ہی حاصل کیا۔ دوہزارسات سے دوہزاراکیس کے درمیان پاکستان میں سٹاک ایکسچینج میں چھہتر نئی کمپنیوں کا اندراج ہوا جنہوں نے مجموعی طور پر ستانوے ارب اُنتالیس کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ اکٹھا کیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج مارکیٹ نے تمام اقسام کی کمپنیوں کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں اور بک بلڈنگ کے عمل میں تقریباً تمام ہی کمپنیوں کے حصص کی مقرر کردہ قیمت سے زائد پر خریدا اور بعض کمپنیوں کو مقررہ ہدف سے چالیس فیصد اضافی قیمت پر حصص فروخت کیلئے پیش کش موصول ہوئی۔ حصص کی اوّلین عوامی فروخت اور سٹاک مارکیٹ میں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف شعبوں میں قائم کمپنیوں نے رجسٹریشن کے ذریعے خاصا سرمایہ اکٹھا کیا۔ کمپنیاں نئے حصص کا اجرا کرتی ہیں اور انہیں خریدنے کا پہلا اختیار موجودہ حصص یافتگان یا شراکت داروں کو دیا جاتا ہے۔ اگر وہ شراکت دار خریدنے سے انکار کریں تو پھر دیگر سرمایہ کاروں کو یہ حصص خریدنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں گزشتہ مالی سال کے دوران چوبیس کمپنیوں نے اپنے رائٹ شیئرز کا اجرأ کیا اور مجموعی طور پر اُنچاس ارب چون کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ حاصل کیا۔ شیل پاکستان نے 100فیصد حصص کے رائٹ شیئرز جاری کرکے سب سے زیادہ گیارہ ارب پچپن کروڑ روپے کا سرمایہ حاصل کیا۔ فوجی فرٹیلائزر بن قاسم نے پانچ ارب روپے‘ دی سیرل کمپنی نے ساڑھے چار ارب سے زیادہ روپے، یونائیٹڈ فوڈز نے ساڑھے چار ارب روپے مالیت کے شیئرز جاری کئے۔ رواں برس (دوہزاراکیس) کی پہلی سہ ماہی میں اکیاون فیصد سرمایہ کاری امریکہ‘ اٹھارہ فیصد جرمنی اور دس فیصد چین میں ہوئی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا بھر میں کمپنیاں سرمائے کے حصول کیلئے سٹاک مارکیٹوں کا رخ کریں گی۔ گزشتہ دو سال سے ایشیائی خطے میں دوسو سے زائد کمپنیاں سٹاک مارکیٹ میں رجسٹریشن کیلئے آتی ہیں اور ہر سہ ماہی میں تقریباً پینتیس سے چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرلیتی ہیں۔ دنیا بھر سے کاروباری خبریں دینے والی ویب سائٹ فورچون کے مطابق لندن سٹاک ایکس چینج میں موجودہ سال کی پہلی ششماہی کے دوران آئی پی او میں 467 فیصد اضافہ ہوا۔ اُنچاس کمپنیوں کی نئی لسٹنگ ہوئی (جن میں سے آٹھ ٹیکنالوجی بیسڈ کمپنیاں ہیں) اور ستائیس ارب برطانوی پاؤنڈ کا سرمایہ اکٹھا کیا گیا۔اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی کمپنیاں سٹاک مارکیٹ کا رخ کررہی ہیں۔ بمبئی سٹاک کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن تین ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ سال 2021ء میں ساٹھ نئی کمپنیوں نے حصص کی اوّلین عوامی فروخت کا اعلان کیا ہے جس میں سے اٹھائیس کی فروخت مکمل ہوچکی ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت نت نئے ذرائع سے سرمایہ کشید کرنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے اور اس کی ضرورت اس لئے بھی پیش آرہی ہے کہ پوری دنیا میں کورونا وباء سے روایتی سرمایہ کاری کا شعبہ مندے کاشکار ہے اور کارخانے جہاں اپنی پوری گنجائش کے ساتھ پیداوار کرنے سے قاصر ہیں وہاں دیگر پیداواری شعبے بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ایسے میں جو غیر روایتی شعبے سامنے آئے ہیں جہاں سے سرمایہ کشید کرنا زیادہ سودمند ہے وہ سٹاک ایکسچینج ہیں جہاں باجود اس کے کہ پوری دنیا میں کورونا سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی وہاں سٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان رہا اور بڑے پیمانے پر اس سے سرمایہ کاروں نے سرمایہ پیدابڑھایا۔ پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کی تعداد صرف ڈھائی لاکھ ہے جبکہ چین میں یہ تعداد سترہ کروڑ‘ بھارت میں پانچ کروڑ اور بنگلہ دیش میں اُنتیس لاکھ ہے۔ پاکستان میں اکثر کمپنی مالکان اپنی کمپنی پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لئے بہت ہی کم مالیت کے حصص شراکت داری کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور وجہ ہے کہ کمپنیوں کا فری فلوٹ بھی بہت کم ہے تاہم مختلف کمپنیوں کی جانب سے سٹاک مارکیٹ کا رخ کرنے کی بڑی وجہ کاروبار میں نئی نسل کی آمد بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب خاندانوں تک محدود اکثر کمپنیوں میں دوسری یا تیسری نسل بورڈ کا حصہ بن چکی ہے۔ نئی نسل تعلیم یافتہ اور ملکی و غیر ملکی کاروباری ریگولیشن سے واقفیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ نئے مالکان بینک سے قرض لینے کی بجائے ایکویٹی کی بنیاد پر توسیع چاہتے ہیں۔ وہ خاندان کے افراد کے ساتھ دیگر افراد کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرکے کمپنی میں نئی سرمایہ کاری اور نئی سوچ بھی لارہے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ حصص مارکیٹ سے رجوع کرنے پر مبنی ”نئی سوچ“ اقتصادی و صنعتی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہو اور سرمایہ کاروں کو اس پر بھرپور اعتماد ہو۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں امن آنے سے جہاں پڑوسی ممالک اور خطے میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی وہاں پوری دنیا سے سرمایہ کاروں کا رخ اس خطے کی طرف ہوسکتا ہے اور پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں پر مستقبل میں سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگا سکتے ہیں اور اسکی وجہ پاکستان کا مناسب ترین محل وقوع ہے۔ جہاں سرمایہ کاری سے کثیر الجہت فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے چین جیسا ملک بطور پارٹنر ملا ہے جس کی اس وقت پوری دنیا پر معاشی دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور ا سکے پاس سرمائے کی بھی کمی نہیں۔ اب اگر وہ افغانستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو یقینا اسے تحفظ دینے کیلئے وہاں پر امن و امان کی حالت کو بہتر بنانے پر بھی بھر پور توجہ دینا ہوگی اور جہاں افغانستان میں امن ہو وہاں اس کے اثرات پوری طرح پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ چین افغانستان کے انفراسٹرکچر میں ہی زیادہ سرمایہ کاری کریگا تاکہ اسے وسطی ایشیاء تک رسائی ملے اور پاکستان میں اس کی سرمایہ کاری پیداواری نوعیت کی ہوگی تاکہ وہ زیادہ محفوظ بھی رہے اور وسطی ایشیاء کو بھیجنے کیلئے کم ترین فاصلے پر بھی ہوں۔ اسلئے پاکستان کی حیثیت مثالی ہے اور موجودہ حالات میں سٹاک ایکسچینج کی کارکردگی اس ضمن میں ایک بہت اہم اور مثبت اشارہ ہے۔ جس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اب اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں خطے کے معاشی حب کی حیثیت حاصل ہونے والی ہے اور اس ضمن میں ہمارے ہاں تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت اور اہمیت بڑھ سکتی ہے۔ اسلئے ایسے شعبوں میں حکومت کو خصوصی پالیسیاں بنا کر اس پر عملدرآمد شروع کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔