کھیلوں کی دنیا اور پاکستان

جدید دور میں کھیلوں کی تمام تر پیشہ ورانہ ترقی کے باوجود انہیں آج بھی کسی بھی قوم کی اجتماعی صحتمندی کا اولین پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ جس قوم کے کھیلوں کے میدان آبا دہوں وہاں غربت وافلاس اور بیماریاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔کھیل کود اور انسانی معاشرے کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے گو یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرت میں ترقی کی شرح سے کھیل کود کے طور طریقوں میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے لیکن بہر حال کھیل کود کوآج بھی کسی بھی صحت مند معاشرے کی بنیاد سمجھاجاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند چونکہ ایک درخشاں تاریخ کا مرکز رہا ہے اور یہاں بعض مقامی کھیلوں کے علاوہ چونکہ تقریبا ہر کھیل کھیلاجاتارہا ہے اس لئے تقسیم برصغیر کے وقت متحدہ ہندوستان کا سب کچھ دو آزاد اور خود مختار ممالک میں بٹنے کے بعد کھیل کود کے میدان اور مختلف کھیلوں کی مشترکہ ٹیمیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھیں جن کی نمایاں مثال متحدہ ہندوستان کی کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کابھارت اور پاکستان کی دو الگ الگ ٹیموں میں بٹ جانا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان نے آزادی کے بعد پہلی بار 1948 میں لندن میں منعقدہ اولمپکس مقابلوں میں حصہ لیا تھاجن میں پاکستان کوئی بھی تمغہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اس کے بعد اگلی بارہیلسنکی اولمپکس میں بھی یہی حال رہا، البتہ 1956 میں میلبورن آسٹریلیا میں پاکستان کو ہاکی کے فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑاتھاالبتہ ان گیمز میں پاکستان کو کم از کم چاندی کا تمغہ ضرور مل گیاتھا جو پاکستان کا اولمپکس میں پہلا تمغہ تھا۔اگلی بار 1960 کے روم اولمپکس میں پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت کو ہاکی کے فائنل میں ہرا کر نہ صرف پچھلی شکست کا بدلہ چکادیاتھا بلکہ پہلی بار سونے کا تمغہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا۔پاکستان کو کھیلوں کی دنیا میں ماضی میں ذیادہ تر شہرت ہاکی،سکواش،کرکٹ،سنوکراور کسی حدتک باکسنگ،ریسلنگ اور کشتی رانی میں ملتی رہی ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے تین عشروں کے دوران ہم عالمی سطح پر کھیلوں میں بھی اپنی ساکھ کھوتے رہے ہیں جس کا ثبوت گزشتہ 29سالوں کے دوران پاکستان کا کسی بھی کھیل میں عالمی سطح پر کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھاناہے۔یاد رہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر آخری مرتبہ بارسلونا اولمپکس 1992میں ہاکی میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان چونکہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی ہونے کے ناطے کھیلوں کی اہمیت اور اس شعبے میں درپیش مسائل سے براہ راست واقف ہیں اس لئے وہ کم از کم کھیلوں کے میدان میں پاکستان کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن حال ہی میں جاپان میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی ناقص کارکردگی اوران اولمپکس میں سات افراد پر مشتمل پاکستانی دستے کے خالی ہاتھ وطن لوٹنے سے نہ صرف یہ امیدیں دم توڑ گئی ہیں بلکہ ان مایوس کن نتائج سے پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کاوہ سب سے بڑا ملک بھی بن گیا ہے جس نے اولمپکس میں کوئی بھی تمغہ نہیں جیتا اگرکھیلوں میں پاکستان کی74سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو شروع سے اب تک پاکستان کے217کھلاڑیوں نے 17اولمپکس مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور اس دوران کل ملا کرصرف دس تمغے جیتے ہیں جن میں تین سونے، تین چاندی اور چار کانسی کے تمغے شامل ہیں جن میں آٹھ تمغے ہاکی کے مرہون منت ہیں لیکن بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہاکی کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم نہ تو گزشتہ اولمپکس اورنہ ہی حالیہ اولمپکس میں کوالیفائی تک کر سکی ہے جویقینا پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حالیہ ٹوکیو اولمپکس میں 93ممالک ایسے تھے جو کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کر نے میں کامیاب ہو ئے ہیں جن میں پاکستان شامل نہیں ہے۔قابل افسوس امریہ ہے کہ اس فہرست میں یوگنڈا اور ایتھوپیا جیسے غربت وافلا س کے شکار ممالک بھی چار چار میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں حتی کہ شام جیسا طویل خانہ جنگی اور تباہی وبربادی سے دوچار ملک بھی ان اولمپکس میں تانبے کا میڈل جیت سکاہے۔دنیا کھیلوں کو کتنی اہمیت دیتی ہے اور کھیلوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک دنیاکے سامنے اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کیلئے کھیلوں پر کتنے بھاری بھر کم اخراجات کرتے ہیں ان کا اندازہ ٹوکیو اولمپکس پر جاپان کے ہونے والے 15.4 ارب ڈالرکے کثیر اخراجات سے لگایاجاسکتا ہے۔دراصل کھیل کے میدان کی کارکردگی چاہے وہ کمال ہویازوال کسی بھی ملک کی مجموعی قومی کارکردگی کاعکس ہوتی ہے۔چنانچہ دیکھ لیجیے کہ ٹوکیو اولمپکس میں امریکہ 113 تمغوں کے ساتھ سرفہرست رہا ہے اورچین 88تمغوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آیاہے جب کہ ہم اس صف میں سب سے آخر میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں وطن عزیز کو نمایاں مقام دلانے کے لئے پالیسی مرتب کی جائے اور ایک کھیل کی بجائے تمام کھیلوں کو اہمیت دی جائے تاکہ ملک میں موجود ٹیلنٹ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔