ابتدا میں اطلاعات کی روشنی میں ایسا ماحول بن رہا تھا کہ جیسے مصباح الحق کی ’اچانک‘ روانگی کے بعد اب قرعہ فال کسی غیر ملکی کے نام ہی نکلے گا اور بالآخر ایسا ہی ہوا غیر ملکی کوچ کے ساتھ پاکستان کا پہلا تجربہ بہت نشیب و فراز کا حامل تھا لیکن دوہزارتین کے ورلڈ کپ کی بدترین ناکامی کے بعد آپریشن کلین اپ میں سب کا صفایا ہوگیا۔ اس کے بعد نیا کپتان اور نیا کوچ چنا گیا۔ نظرِ انتخاب پھر مقامی کوچ پر پڑی اور جاوید میانداد کو تیسری مرتبہ یہ ذمہ داری دی گئی۔ وہ 1998ء اور 2000ء میں ایک‘ ایک سال کوچ رہ چکے تھے اور اس مرتبہ بھی یہ عہدہ ایک سال ہی ان کے پاس رہا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جون 2004ء میں پاکستان نے باب وولمر کو اپنا کوچ مقرر کیا۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا اور وہ جنوبی افریقہ کی کوچنگ کرکے عالمگیر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ اُنیس سو چورانوے سے اُنیس ننانوے کے دوران ان کی تربیت میں جنوبی افریقی ٹیم کا شمار بلاشبہ دنیا کی کامیاب ترین ٹیموں میں ہوتا تھا۔ باب وولمر کے آتے ہی پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی ایک نئی جان نظر آئی۔ دوہزارپانچ کے اوائل میں پاکستان نے دورہئ بھارت میں ٹیسٹ سیریز برابر کی اور ون ڈے سیریز چار دو سے جیتی۔ بھارت کو بھارت میں چت کرنا ایسا کارنامہ تھا‘ جس نے وولمر کے مقام کو مضبوط کردیا۔ اُسی سال ان کی کوچنگ میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کو ایشیز میں تاریخی شکست دے کر آنے والی انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو بھی ہرا دیا۔ اس کے ساتھ بھارت اور سری لنکا کو بھی ٹیسٹ سیریز میں زیر کیا۔ یوں وولمر کی دھاک بیٹھ گئی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے کوچ کے مقابلے میں زیادہ عرصے پاکستان کے ساتھ رہے۔ یہاں تک کہ وہ مارچ دوہزارسات میں ورلڈ کپ میں پاکستان کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست اور ایونٹ سے اخراج کا صدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی روز انتقال کرگئے۔ وولمر کی المناک موت کے بعد پاکستان نے اگلا انتخاب بھی غیر ملکی کوچ کا ہی کیا‘ جو روایت کے برعکس اٹھایا گیا قدم تھا۔ یہ آسٹریلیا کے جیف لاسن تھے‘ جنہیں دو سال کیلئے یہ عہدہ دیا گیا تھا لیکن چیئرمین اعجاز بٹ نے اگلے ہی سال لاسن کی چھٹی کردی۔ دوہزار آٹھ سے دوہزاردس تک پھر ’مقامی‘ کوچ انتخاب عالم نے ذمہ داری نبھائی۔ وقار یونس کے بطور ہیڈ کوچ دو ادوار آئے جن کے درمیان غیر ملکی آسٹریلیا کے ڈیو واٹمور نے سال دوہزار بارہ سے چودہ کے درمیان پاکستان کی کوچنگ کی۔ وقار یونس کا دوسرا دور دو سال رہا اور انہوں نے استعفیٰ دے کر اپنی راہیں جدا کیں۔ مئی دوہزارسولہ میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مکی آرتھر کو قومی ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا جن کے دور میں پاکستانی ٹیم ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم بنی دوہزاراُنیس میں پاکستان نے مصباح الحق کو نیا ہیڈ کوچ بنا دیا۔ فی الوقت رمیز راجا کی آمد کے بعد مصباح الحق استعفیٰ دے گئے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی جگہ جسے بلایا گیا ہے‘ وہ بھی کوچنگ کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ یعنی مصباح کا انتخاب جس بنیاد پر غلط سمجھا جا رہا تھا‘ بالکل اسی پر ہیڈن کو بھی چنا گیا ہے۔ رمیز راجا کے بقول آسٹریلین کی موجودگی قومی ٹیم میں جارح مزاجی لائے گی۔ ہیڈن ورلڈ کپ کا تجربہ رکھتے ہیں اور ایک ورلڈ کلاس کھلاڑی ہیں لیکن مصباح کی طرح ہیڈن بھی کوچنگ کا تجربہ نہیں رکھتے بلکہ ویرنن فلینڈر نے بھی کبھی کسی ٹیم کے کوچ کا کردار ادا نہیں کیا اور یہی پہلو ایک سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے!