بائیڈن انتظامیہ سے کانگریس میں بازپرس

بائیڈن انتظامیہ کو پچھلے روز امریکی کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹیوں میں سقوطِ کابل اور انخلا کے تناظر میں کئی گھنٹے سخت بازپرس کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر حقیقت یہ ہے بائیڈن انتظامیہ ان حالات میں کچھ زیادہ کر بھی نہیں سکتی تھی اور اگر طالبان بھی تحمل اور بردباری نہ دکھاتے تو امریکہ کیلئے بڑی مشکل کھڑی ہوجاتی۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن ارکانِ سینیٹ نے صدر بائیدن اور سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن پر سخت تنقید کی کہ وہ افغان افواج کی استطاعت اور کابل پر طالبان کی آمد بارے درست اندازے لگا سکے اور نہ امریکیوں اور ان کے افغان مددگاروں کا فوری، مکمل اور محفوظ انخلا یقینی بناسکے۔اس سے پہلے ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی میں بھی ریپبلکن ارکان نے ان پر تمام امریکییوں اور افغان مددگاروں کے انخلا سے پہلے امریکی فوج نکالنے، افغان اتحادیوں کے لیے ویزا پروسیسنگ کی سست رفتاری، بگرام ایئر بیس کا فوجی اڈہ ترک کرنے کیلئے انتظامیہ کو اُکسانے، طالبان کی آمد بارے انٹیلی جنس اشاروں پر توجہ نہ دینے، طالبان کیلئے امریکی فوجی سازوسامان چھوڑنے، عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا اور چند نے صدر بائیڈن اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ چند ارکان نے کابل ائرپورٹ دھماکے کے بعد وہاں امریکہ کے ایک کار پر حملے پر سوال کیے کہ اس میں بظاہر بے گناہ لوگ مارے گئے۔سینیٹرز نے الزام لگایا کہ طالبان کے سامنے غیر مشروط ہتھیار ڈالنا امریکہ کی توہین ہے اور یہ کہ امریکیوں کی اکثریت افغانستان چھوڑنا چاہتی تھی لیکن اس انداز میں نہیں۔ تاہم ارکان نے یہ نہیں کہا کہ فوجیوں کی تعداد بڑھاکر افغانستان میں قیام بڑھا دیا جاتا۔بلنکن نے اصرار کیا امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ درست ہے۔ فروری 2020 کے امریکہ طالبان معاہدے کے پیش نظر ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ صدر بائیڈن کو عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا جنگ ختم کی جائے یا اسے بڑھایا جائے۔ اگر وہ اپنے پیشرو کے وعدوں کو پورا نہ کرتے تو ہماری افواج اور ہمارے اتحادیوں پر حملے جاری رہتے اور افغانستان بھر میں بڑے شہروں پر طالبان کا حملہ شروع ہو جاتا۔ ایسے میں ہمیں اپنے دفاع اور طالبان کو ملک پر قبضہ کرنے سے روکنے کیلئے بڑی تعداد میں مزید فوج افغانستان بھیجنا پڑتی جس کے نتیجے میں مزید ہلاکتیں بھی ہوتیں۔ نتیجتا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ افغانستان کے حالات جوں کے توں رہتے اور ہم بدستور حملوں کی زد میں ہوتے ہوئے لامحدود مدت تک افغانستان میں پھنسے رہتے پھر ہم افغانستان القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور دوبارہ ایسا نہ ہونے دینے کیلئے گئے تھے۔ ہم نے بہت پہلے یہ مقاصد حاصل کر لیے تھے۔ افغانستان سے واپسی کے فیصلے کو نیٹو نے بھی فوری اور متفقہ طور پر قبول کیا۔ پھر 20 سال میں ہمارا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا اور یہ جنگ جاری رہتی تو چین اور روس جیسے ہمارے تزویراتی حریف یا ایران اور شمالی کوریا جیسے مخالفین خوش ہوجاتے کہ امریکہ ایک اور دہائی تک افغانستان میں پھنس گیا ہے۔ان کی بات درست ہے۔ امریکہ نے جو کیا وہ موقع و محل کی مناسبت سے درست ممکنہ اقدام تھا۔ امریکہ کو توقع نہیں تھی کہ ان کی حمایت یافتہ اور تربیت یافتہ فوج کابل میں امریکی افواج کی موجودگی کے دوران ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ اگر امریکہ افغانستان میں مزید فوج بھیجتا اور قیام بڑھاتا تو حملوں کے خطرات بڑھ جاتے مگر اس بات کا کوئی امکان پھر بھی نہ تھا کہ سکیورٹی فورسز یا افغان حکومت مزید مضبوط یا اپنا دفاع خود کرنے کے قابل ہو جاتی۔ اگر 20 سال گزارنے اور امداد، سازوسامان اور تربیت کی مد میں اربوں ڈالر خرچ کرنے سے ایسا کوئی فائدہ نہیں تو ایک اور سال یا مزید پانچ یا دس سال وہاں رہنے سے کیا حاصل ہو جاتا؟ پھر جو بائیڈن انتظامیہ طالبان سے نئے مذاکرات بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ طالبان نے کسی نئے معاہدے سے انکار کرتے ہوئے سابقہ معاہدے پر عمل درآمد کا ہی مطالبہ کیا تھا۔ریپبلکن رکن گریگوری ڈبلیو میککس، جو خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین ہیں، نے بھی کہا بائیڈن انتظامیہ پر ری پبلکن تنقید غیر حقیقت پسندانہ ہے کیوں کہ جنگ سے باہر نکلنا اور ایسے موقع پر انخلا کبھی آسان نہیں ہوتا۔چند ریپبلکنز نے خدشہ ظاہر کیا کہ امریکہ نے افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے ڈونر اجلاس میں 64 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے جس سے امریکی امداد تین سو تیس ملین ڈالر ہوگئی ہے لیکن کہیں یہ پیسے طالبان کے ہاتھ نہ آئیں اس پر بلنکن نے جواب دیا یہ امداد طالبان کے بجائے براہ راست غیر سرکاری تنظیموں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو دی جائے گی۔ واضح رہے طالبان کی آمد پر امریکہ نے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کردئیے ہیں جن کی وجہ سے اقوام متحدہ کے مطابق خوراک اور نقد رقم کی شدید قلت پیدا ہوئی ہے جبکہ افغانستان کی آدھی آبادی پہلے ہی غیر ملکی امداد پر منحصر تھی۔ایک تنقید یہ تھی کہ محکمہ خارجہ افغان اتحادیوں کی ویزا درخواستوں پر سست رفتاری سے کاروائی کررہا تھا۔ بلنکن نے کہا میں نے اس سال موسم بہار میں اس پروگرام کیلئے بڑی مقدار میں اضافی وسائل مختص کرنے، واشنگٹن میں درخواستوں پر کاروائی کرنے والے لوگوں کی تعداد 10 سے بڑھا کر 50 کرنے اور کابل میں ہمارے سفارت خانے میں درخواستوں پر فیصلہ کرنے والے عملے کی تعداد دگنی کرنے کا حکم دیا۔ مزید قونصلر افسر کابل بھیجے۔ ان اقدامات کی بدولت مئی تک ان ویزوں پر کاروائی کے اوسط وقت میں ایک سال تک کی کمی لے آئے۔ اس طرح مارچ میں ہم اگر 100 خصوصی ویزے جاری کر رہے تھے تو اگست میں یہ تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ بلنکن نے بتایا کہ افغانستان سے انخلا بذات خود ایک غیرمعمولی کام تھا جس میں ہمارے سفارت کاروں، ہماری فوج اور ہمارے انٹیلی جنس اہلکاروں نے انتہائی مشکل حالات میں ایک لاکھ چوبیس ہزار افراد کو کابل سے نکالا۔ ہماری قونصلر ٹیم نے افغانستان میں موجود امریکیوں یا اتحادیوں سے 55,000 مرتبہ فون پر رابطے کیے اور 33,000 ای میلز بھیجیں۔31 اگست کو کابل میں امریکی فوج کا افغان مشن باقاعدہ طور پر ختم ہو گیا اور ایک نیا سفارتی مشن شروع ہوا۔ ہم نے اپنا سفارتی کام کابل سے دوحہ منتقل کر دیا ہے۔ ہم ہر ایسے امریکی شہری اور افغان مددگاروں کی مدد جاری رکھیں گے جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اپنی بھرپور سفارت کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ توقع ہے کہ طالبان لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی دیں گے، افغان عوام بشمول عورتوں، لڑکیوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق قائم رکھیں گے۔بلنکن نے امریکی فوج، سفارت کاروں اور امریکی قوم کو انخلا میں مسلسل محنت کرنے اور اپنے آرام کی قربانی دینے پرقابل فخر قرار دیا۔ انہوں نے سب کی تعریف کی مگر طالبان کی تعریف کی نہ ان کا شکریہ ادا نہیں کیا حالانکہ طالبان نے امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو عام معافی دی، غیرملکی افواج اور سفارت کاروں کے محفوظ انخلا کیلئے تعاون کیا اور معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے امریکی افواج پر حملے کرنے سے گریز کیا۔