وہ ہانڈیا ں کہاں گئیں؟

ہر سُو بے قراری کا عالم ہے۔اصل میں ہم نے اپنی مٹی سے اپنا رشتہ ناتا توڑ دیا ہے۔جس سے ہماری تخلیق ہوئی اس کو ترک کر دیا۔مٹی کے برتن میں پانی پینا اور مٹی کی ہنڈیا میں کھانا پکانا۔ پھر مٹی کی رکابیوں میں سالن ڈال کر تناول کرنا۔ سب کچھ تو ہم نے چھوڑ ہی دیا۔جس کی سزا ہمیں اس جدید دور میں مل رہی ہے۔جہاں ہم نے اپنے کھانے پینے میں شیشے کے برتن وگلاسوں کو اپنا رکھا ہے۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ وہ ذائقے ہی موجودنہیں ہیں۔مٹی سے رشتہ ٹوٹا تو زبان سے لذت بھی چھن گئی۔ گوبھی کھاؤ تو شلجم کا ذائقہ دے۔ اس سبزی کا اصل مزا تو سرے سے غائب ہے۔جو گوبھی ہم بچپن میں کھاتے تھے اور مزے لے کر نوالے لیتے۔کبھی تو گوشت میں پکی ہوتی اور کبھی قیمہ میں۔مگر اب تو گوبھی کیا کسی سبزی کو دانتوں تلے چپائیں تو  شک پڑتا ہے شاید ہم کوئی دوسری سبزی لے آئے ہیں۔گوبھی ہی کو لیں۔چائنا تک کی گوبھی ہم ایک عرصہ سے کھا رہے ہیں۔ جو دیکھنے میں گوبھی کے پھول کی طرح لگتی ہے۔ پھر ہم خرید بھی لیتے ہیں کھا بھی لیتے ہیں۔مگر کھاتے ہوئے آنکھیں یہاں وہاں گھماتے ہیں۔اس سوچ میں ہوتے ہیں کہ کیاہم واقعی گوبھی کھا رہے ہیں یا کچھ اور ہے۔پہلے گھر میں گوبھی پکی ہوتی تھی۔اس وقت گھر میں آتے ہوئے گلی میں داخل ہوتے تو گلی ہی میں اس ترکاری کی خوشبو دل و دماغ کوخوشبو دارکر دیتی۔ہم گھر کے دروازے میں داخل ہوتے ہی کہتے گوبھی پکی ہے آج۔واہ واہ واہ۔اصل میں ہر انسان کی اپنی پسند نا پسند ہوتی ہے۔کوئی کھانے میں کیا پسند کرتا ہے اور کوئی کیا۔ہمارا تو یہ من بھاتا کھاجا ہے۔بلکہ گوبھی دو ایک دن پہلے کی تیارشدہ ہو تو اس کامزا دوبالا ہو جاتا ہے۔مگر آج تو اصلی گوبھی بھی ڈھونڈنے کوکھوجیوں کی خدمات اگر قیمت دے کر لیں توکھوجنے والا سونگھ سونگھ کر بھی گوبھی کی لذت کواغوا کرنے والے کا نام و نشان تک معلوم نہیں کر پائے گا۔سردیوں کے بجائے اب تو گرمیوں میں بھی گوبھی مل جاتی ہے۔ ظاہر ہے بے موسمی شئے ہوگی جانے کہاں سے آئی ہوگی۔ اس لئے اس میں لذت کہا ں ہوگی۔بس نام کوسبزی ہوگی مگر اس میں زردی ہوگی اور ذائقہ تو ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔گلیات سے گوبھی کے پھول اکھاڑ کر لائیں گے کہتے ہیں کہ یہ فلاں جگہ کی گوبھی ہے۔اپنی گوبھی کیلئے تو ترس ہی گئے ہیں۔گوبھی میں انڈا ڈال کر دوسرے دن اگر صبح ناشتے کے ساتھ کھائیں تو اس کاالگ سے مزا ہوتاتھا۔ سبزی والاکہتا ہے یہ فلا ں شہر کی ہے۔مگر ہم دل میں کہتے ہیں کہ یہ شلجمی گوبھی ہے۔کیونک اس میں زبان کا وہ سرور نہیں۔ یہ توکھاؤ لگتا ہے شلجم کھا رہے ہیں۔پھر شلجم لے کرپکاؤ تو کسی اور سبزی کا گمان ہوتاہے۔کدو دال تک سے لذت اڑ گئی ہے۔میں تو حیران ہو ں کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔جس طرف منہ اٹھاؤ اصل چیزیں ناخالص ہو رہی ہیں۔ایک دکاندار کے دودھ کامزا دوسرے دکاندار کے دودھ سے نہیں ملتا۔ جب دودھ ایک ہے توذائقے کیوں مختلف ہیں۔آئے روز دیکھتے ہیں کہ مجسٹریٹ کے ساتھ اس کا عملہ مل کر ہزاروں لیٹر دودھ زمین پر بہا دیتے ہیں۔کہتے ہیں خالص لاؤ او رفروخت کرو۔لیموں تک چائنا کے مل رہے ہیں۔ باہر سے لیموں اوراندر رس توہے ہی نہیں۔اگرہے تو ہاتھ مروڑ مروڑ کر اس کا پانی نکالو۔مگر ہاتھوں کی انگلیاں مڑ کر دکھنے لگیں گی اور رس نکل نہ پائے گا۔ گڑ کا شربت بیچنے والا اس کا رس نچوڑکر گلاس میں ڈالنے کو لکڑی کا سروتا رکھے گا۔وہ بھی لگتا ہے کہ یونہی رسم کے طور پر لیموں کچلتا ہے۔کیونکہ اس کے اندرسے نکلتا جو کچھ نہیں۔بینگن پکاؤ وہ ذائقہ ہی نہیں۔یہ ایک گھرکی کہانی نہیں ہے۔یہ گھر گھر کی روداد ہے۔پھر دکھ بھری داستان ہے۔ارے بھائی روٹی ہی کولیں۔مختلف آٹے ہیں۔مختلف ذائقے ہیں۔ پھر آج کل تو گاؤں میں بھی کھانے کی چیزیں اصلی نہیں ہیں۔ وہ بھی روتے ہیں کہ وقت نے عجیب کروٹ لی ہے۔جیسے سب لذتیں کوئی چرا لے گیا۔بینگن کا مزا تو گیا مگر اس کی ویلیو زیادہ ہوگئی ہے۔کیونکہ شہری اگر گوشت نہیں کھا سکتے تو سبزیاں کھائیں گے۔ مگر سبزیاں بھی سستی تو نہیں ہیں۔چاندی کی چیز سونے کے مول فروخت کی جا رہی ہے۔پھرہمارے بھائی لوگ بھی مجبورہیں۔اگربھوکے رہیں گے تو مریں گے اور کھائیں تو خالص اور پُرذائقہ خوراک کہاں ملتی ہے۔۔لوگ ان کھانوں کے کھانے سے بیمار ہوئے جاتے ہیں۔کچھ بستر پر دراز ہو جاتے ہیں اور کچھ بیماری کے بستر پرلیٹے لیٹے بر لبِ گور پہنچ جاتے ہیں۔مگر کسی کوپروا ہی نہیں۔پہلے توایک گھر میں گوبھی پکتی تھی تو چار گھروں میں اس کی خوشبو پہنچتی تھی۔ اب تو یہ ڈش پکے تو ہانڈی کے اوپرڈھکن ہٹا بھی دو تو پوچھنا پڑتا ہے اری کیا پکا رہی ہو۔ہائے وہ لذتوں کے زمانے کہاں گئے۔وہ ہماری برکت والی ہانڈیاں کہاں گئیں۔ جس نے بھی یہ گل کھلایا ہے اچھا نہیں کیا۔