خبر دار ہو شیار!

ایک ہی روز اخبارات میں دو خبریں آگئیں پاکستان کے ما یہ نا ز ایٹمی سائنسدان محسن پا کستان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے تردیدی بیان جاری کیا کہ میری وفات کی خبر جھوٹی ہے میں زندہ ہو ں اور تندرستی کے قریب ہوں اسی صفحے پر دو کا لمی خبر میں پڑوسی ملک افغا نستان کی امارت اسلامی کے نائب وزیر اعظم ملا عبد الغنی برادر کا تردیدی بیان آیا ہے کہ میری وفات کی خبر غلط ہے میں صحت مند ہوں اور دفتری فرائض انجام دے رہا ہوں تردیدی خبروں کو پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ کس طرح آج کل ابلاغ عامہ کے ذرائع کسی بھی وقت کسی بھی زندہ شخصیت اور خاص کر کے نامور شخصیت کی وفات کی غیر مصدقہ خبردے سکتے ہیں‘ پا بندی کوئی نہیں جر ما نہ کوئی نہیں سزا کوئی نہیں تردید کرنے والا اگر ہر جانے کا دعویٰ کرے تو عدالتوں سے مقدمے کا فیصلہ آنے سے پہلے موت کا پروانہ آجا ئے گا اور خبر سچ ثا بت ہو نے کے بعد مقدمہ خارج کیا جا ئے گا محسن پا کستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں پہلے بھی ایسی افواہ اُڑائی گئی تھی اور شکر ہے کہ وہ بھی غلط تھی یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں کسی شاعر نے ایک مصر عے میں پتے کی بڑی بات کہی ہے ”دوڑ و زما نہ چال قیامت کی چل گیا“ اب کوئی بڑی شخصیت اپنے گھر میں راکٹ، میزائل، بم اور گولی سے لا کھ محفوظ ہو مو ت کی افواہ سے محفوظ نہیں کسی سہا نی شام یا سہا نی صبح کسی بھی بڑی شخصیت یا سیلبریٹی (Celebrity) کے ”انتقال پر ملا ل“ کی جھو ٹی خبر آ سکتی ہے خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلے گی تعزیت، فاتحہ خوانی کیلئے آنے والوں کی قطاریں لگ جا ئیں گی۔ ٹیلی فون پر پیغا مات آنے لگیں گے‘ پھر ممتاز شخصیت کو ڈاکٹر عبد القدیرخان اور ملا عبدا لغنی برادر کی طرح اپنی وفات حسرت آیات کی تر دید میں بیان دینا پڑے گا اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا تو تردیدی بیان کے بعد ایک اور بیان کے ذریعے مر نے کی افواہ پر تعزیت اور جنا زے کیلئے آنے والوں کا شکریہ بھی ادا کر نا پڑے گا آخر وہ لو گ زحمت کر کے تشریف لائے تھے اس نا گوار صورت حال کا خو ش گوار پہلو یہ ہے کہ بندے کو جیتے جی اندازہ ہو جا تا ہے کہ میرے مرنے پر کون کون تعزیت کرے گا کون جنازے پر آئے گا کس کا فون آنے کی امید ہے اور کون میری جدائی کو ملک اور قوم کا ناقابل تلا فی نقصان قرار دے گا اور کون دور کی یہ کوڑی لائے گا کہ مرحوم کی مو ت سے پیدا ہو نے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا۔ 1970کے عشرے میں تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ کی یو نین فعال ہو اکر تی تھی مختلف نا موں سے دائیں اور با ئیں بازو کی طلبہ تنظیمیں کا م کر رہی تھیں ان دنوں ہما ری یو نیورسٹی کی دیوار وں پر مسلسل چا کنگ ہو رہی تھی ’کہ فلاں طالب علم کو رہا کرو اس سے یہ تاثر ملنے لگا جیسے ان کو رہا نہ کرنے کے نتیجے میں حالات خراب ہو جائینگے اور انتظامیہ کیلئے مسئلہ بن جائے گا بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ مختلف طالبعلم خود اپنے بارے میں یہ سب لکھا کرتے تھے راتوں کو گھومتے ہوئے دیواروں پر اپنی گرفتاری کی خبر اور رہا ئی کی اپیل لگا تے جا تے تھے انہوں نے جستی چادر کا ایک بلاک تیار کیا تھا اس بلا ک کے ساتھ ایک سیڑھی اور کا لے رنگ کے ڈبے اوربرش کو ہاتھ میں لیکر یہ ڈرامہ رچا تے تھے ا ور خود کو اس طریقے سے مشہور کر تے تھے اُس وقت سوشل میڈیا ہو تاتو وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر آرام سے اس طرح کا ڈرامہ رچا تے‘ استاد جی کہتے ہیں کہ ”خبر دار ہوشیار“ کی تختی ہر گھر کے دروازے پر لگا نی ہو گی پتہ نہیں کس کی مو ت کی جھوٹی خبر دشمن پھیلائے اور کس کی مو ت کی افوا ہ دوستوں کی طرف سے وائر ل ہو جا ئے اگر بندہ خبردار اور ہوشیار رہے گا تو بروقت اپنی موت کی تر دید کر سکے گا۔