افغانستان کے امن و استحکام پر ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا دارومدار ہے جس کیلئے مستحکم افغان حکومت کا قیام و عمل داری ضروری ہے اس لئے پاکستان اپنے سفارتی ذرائع بروئے کار لا کر طالبان حکومت کے ساتھ عالمی برادری کے تعاون اور اسے تسلیم کرانے کی صدق دل سے کوششیں کر رہا ہے کیونکہ امن کی جزئیات یہ ہیں کہ سیاسی و اقتصادی استحکام لایا جائے۔ افغانستان میں امن کا پاکستان کو براہ راست فائدہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فعال ہونے کی صورت میں ہوگا جبکہ سی پیک کے ذریعے ہی خطے کے دیگر ممالک کیلئے بھی عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے کھلیں گے چنانچہ افغانستان میں امن کی بحالی اور سی پیک نے خطے کے ممالک کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کے نئے بندھنوں میں باندھ دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اس کا واضح عکاس تھا جس کے دوران متعلقہ ممالک کے سربراہان مملکت کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتوں کے علاقائی تعاون کے تناظر میں یقینا مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ افغانستان کی تبدیل شدہ صورتحال کی بنیاد پر آج ویسے بھی دنیا میں علاقائی اور عالمی تعلقات کیلئے نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں علاقائی اتحاد کیلئے پاکستان کو بھی نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔اگر افغانستان کے امن سے جڑی نئی صورتحال میں سی پیک کی بنیاد پر وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو وسعت ملتی ہے تو اس سے لامحالہ پاکستان چین دوستی مزید مستحکم ہوگی جسے سی پیک نے پہلے ہی مزید میٹھا اور گہرا بنا دیا ہے۔ امن و استحکام کی اس خوشگوار فضا میں اپنے مضبوط دفاع اور اقتصادی استحکام و خوشحالی کے تناظر میں پاکستان کا مستقبل تابناک نظر آرہا ہے۔ اس روشن مستقبل کی بہرصورت افغانستان کا امن ہی ضمانت ہے جس میں اب رخنہ ڈالنے کی کسی کو مہلت نہیں ملنی چاہئے۔دوشنبہ (تاجکستان) میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کی قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ‘ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی‘ ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوف اور بیلا روس کے صدر الیگزینڈر سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں دوطرفہ تعلقات‘ خطے بالخصوص افغانستان کی سیاسی صورتحال اور عالمی و علاقائی امور پر تبادلہئ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے ان ملاقاتوں میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر تبادلہئ خیال کیا گیا اور پاکستان کی اِس خواہش و عزم کو دہرایا گیا کہ پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ پاکستان ان ممالک کو سمندری تجارت کیلئے اپنی بندرگاہوں اور مختصر ترین سفری راہداری فراہم کر سکتا ہے۔ سربراہ اجلاس سے قبل مشترکہ بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغان امن کیلئے ہرممکن کوشش کریں گے۔ ہم افغانستان میں مخلوط حکومت چاہتے ہیں‘ بالخصوص دو بڑی برادریوں پشتون اور تاجک کو قریب لانے اور مخلوط حکومت کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے پوری کوشش کریں گے۔ اُن کے بقول پاکستان پرامن‘ مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے کیونکہ افغانستان کے عدم استحکام سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ عالمی برادری کو افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے میں مدد دینا ہوگی اور پاکستان سی پیک کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ افغان امن کے ساتھ پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے کا امن جڑا ہوا ہے۔ بیس سال قبل امریکی نائن الیون کے بعد واشنگٹن انتظامیہ نے افغانستان کو محض اس لئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر فضائی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ اس وقت وہاں طالبان کی حکومت تھی جس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ امریکی بش جونیئر کی حکومت نے سانحہئ نائن الیون کو مسلم دنیا کے خلاف نئی کروسیڈ کے آغاز سے تعبیر کیا اور اسی تناظر میں اپنے فوجی اتحادی نیٹو ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ وہاں طالبان حکومت کو ختم کیا اور افغان دھرتی پر طالبان کے خلاف محاذ ِجنگ کھول دیا جبکہ طالبان اور افغانستان کے دیگر جنگجو گروپوں نے نیٹو فورسز کے مقابل پسپائی اختیار کرنے کے بجائے ان کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کرکے سخت مزاحمت کا سلسلہ شروع کیا۔ نیٹو فورسز نے بیشک افغانستان کا تورابورا بنایا مگر مزاحمت کار افغان باشندوں نے مسلسل بارہ برس تک قربانیوں سے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھ کر افغان دھرتی کے دفاع کا حق ادا کیا اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کا افغانستان میں حکومت پر پہلا حق ہے اور اُنہیں امارات اسلامی کے نام سے ایک فلاحی ریاست بنانے کا موقع دینا چاہئے‘ جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کو بیس برس تک افغانستان کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا اور اُنہوں نے افغان معاشرے کو سوائے غیریقینی کچھ نہیں دیا۔