پاکستان کے اقتصادی حالات تجزیہ کاروں کے اندازوں سے کہیں زیادہ تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں لیکن مبینہ تیز رفتار ترقی اپنی ہی پیدا کی ہوئی مشکلات کا بوجھ اُٹھانے میں ناکام دکھائی ہے جن میں سب سے اہم چیز بیرونی قرضے ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی پیداوار کی رفتار برقرار رکھنے میں جبکہ کچھ صنعتوں کو گزشتہ سال جولائی کی سطح برقرار رکھنے میں بھی مشکل ہورہی ہے حالانکہ اُس وقت کورونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن کے اثرات بھی باقی تھے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہاسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کو سہارا فراہم کرنے کیلئے جون کے وسط سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک ایک ارب بیس کروڑ ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں داخل کئے۔ اس خبر سے مارکیٹ میں کئی سوالات نے جنم لیا۔ کسی نے سوال کیا کہ ’کیا وقعی ایسا ہوسکتا ہے؟‘ کیونکہ یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ اسے اتنے وقت تک چھپایا نہیں جاسکتا تھا اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو ان اعداد و شمار کو کس نے ظاہر (leak) کیا اور اس کا مقصد کیا تھا؟ مذکورہ خبر کے بعد اس حوالے سے خوب باتیں ہونے لگیں کہ روپے کی قدر کہاں تک جائے گی اور شرح سود کس سمت میں جائے گی۔ کچھ دنوں سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 170 کے آس پاس ہی ہے اور یہ اس سطح کو چھو کر اس سے کچھ نیچے بند ہوا۔ مئی کے بعد سے روپے کی قدر میں 10فیصد کمی آچکی ہے اور اس کی بنیادی وجہ بڑھتا ہوا جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مرکزی بینک (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کم از کم جنوری دوہزاراکیس سے ہی انٹر بینک میں ڈالر فروخت کر رہا ہے تاہم عوامی سطح پر دستیاب معلومات سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ یہ رقم کتنی بنتی ہے۔ زرِمبادلہ کی منڈیوں میں سٹیٹ بینک کی فارورڈ پوزیشن کے اعداد و شمار سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ان مہینوں میں بڑے پیمانے پر فروخت ضرور ہوئی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ان اعداد و شمار کے حوالے سے احتیاط برتی جائے کیونکہ اس کو سمجھنا بنیادی ریاضی کو سمجھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے‘ جو ممالک آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہوتے ہیں ان پر آئی ایم ایف کی جانب سے اس قسم کی فروخت پر پابندی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن مہینوں میں ملک آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ تھا ان مہینوں میں یہ فروخت نہیں ہوئیں لیکن اب کہیں کسی نے بلی کو تھیلے سے باہر نکال دیا ہے اور اس بات کو پبلک کردیا ہے کہ سٹیٹ بینک نے روپے کو سہارا دینے کیلیے انٹربینک مارکیٹ میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالر فروخت کئے اور اس قدم کے بہت محدود نتائج ہی برآمد ہوئے۔ ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں زرِمبادلہ کی منڈیوں میں سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی اور روپے کی قدر کو ایک سو ستر سے نیچے برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ یہاں ایک مشکل کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بھی ہے جو دسمبر 2020ء میں سامنے آیا اور اس کے بعد سے اس میں مستقل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ لیکن جولائی سے دسمبر کے دوران دو چوتھائی سرپلس کے باوجود اس کے بعد سے خسارے میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ سال کے اختتام پر ایک ارب بیاسی کروڑ کی قابلِ انتظام حد تک ہی رہا تاہم اس وقت مستقبل کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔ سٹیٹ بینک اور وزیرِ خزانہ کے مطابق انہیں امید ہے کہ یہ ان کے کنٹرول میں رہے گا اور جی ڈی پی کے دو سے تین فیصد کے اندر ہی ہوگا تاہم میں نے جن بینکاروں سے بات کی ہے ان کے اپنے تخمینے ہیں اور ان کے مطابق یہ شرح حکومتی اندازوں سے دگنی ہوگی۔ اس پوری صورتحال میں ایک اور چیز کا اضافہ کرلیں۔ افغانستان کے مختلف شہروں میں ڈالر بھیجے جارہے ہیں اور منی چینجرز کے مطابق وہاں یہ 175 سے 180 روپے میں فروخت ہورہے ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں اور ہر کوئی منی چینجرز سے ملنے والی معلومات یا اپنے رشتہ داروں سے سنی جانے والی کہانیوں پر ہی مفروضے قائم کررہا ہے۔ یہ مفروضے کچھ بھی ہوں بہرحال ملک سے باہر جانے والے ڈالر اتنے نہیں ہیں کہ جس سے روپے کی قدر میں کمی آئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)