وہ ایک بندہ ہے۔پورے گاؤں میں اکیلا ہی ماسک پہن کر گھومتا ہے۔پوچھو تو کہتاہے میں نے دوبار ویکسین کاٹیکہ لگا رکھا ہے۔ پھر لوگ اسے کہتے ہیں کہ تم اس کے باوجود ڈرتے کیوں ہو۔ اس کاجواب ہوتا ہے احتیاط اچھی چیز ہے۔اب تو ماسک اُس کے چہرے پرایسے ہوتا ہے جیسے اس کے رخساروں پر اس کی جلد کاحصہ ہو۔ بلکہ اس کو تو اکیلے ہی ماسک پہن کرچلتے پھرتے رہنے سے پبلک نے اس کا دماغ کا خلل قرار دیا ہے۔مگر کہاوت ہے کہ پاگل کو پورا گاؤں پاگل کہتا ہے اور خود وہی دیوانہ پورے گاؤں کو دیوانہ کہتا ہے۔ماسک کے بارے میں شہر سے دور یا تو آگاہی مہم پورے طور پر ادا نہیں ہوئی یا تو یہ دور دراز کے علاقہ مکین ماسک کی اہمیت اور کورونا کے خطرے سے آگاہ نہیں ہیں۔بعض افسران کے کمرے میں اگر کوئی سٹاف والا یا مہمان آنکلے۔پھر جب وہ ہاتھ ملانے کو آگے ہوتا ہے تو صاحب فرماتے ہیں میں ہاتھ نہیں ملا سکتا صاحب نے دو سال سے یہی رٹ لگا رکھی ہے۔پہلے پہل تو ان کی دماغی صحت پر بھی دوستوں کو شک گذرا۔ مگر انھوں نے تواتر سے جب ہاتھ ملانا ترک کئے رکھا تو اب کہیں جا کر احباب اور ان کے عملہ والے ان کی اس کار گذاری کو درست قرار دیتے ہیں۔پہلے پہل ان سے ملنے والے برا مناتے تھے اور ان کے پیچھے باتیں کرتے تھے۔مگر اب حال یہ ہے کہ ان کی اس ادا کو انجوائے کرتے ہیں۔جب پہلی بار ملنے والا ہاتھ آگے کرے توباس معذرت کر کے ہاتھ نہ ملائیں تو کمرے میں موجود دوسرے لوگ ان سین پارٹ کو تفریح سمجھ کر خوش ہوتے ہیں۔مگر بعض ماسک پہنے ہوئے اشخاص کم از کم ہاتھ تو ملا لیتے ہیں۔پھر جا کر تھوڑی دیر کے بعد باتھ روم میں بیسن کے آگے صابن لے کر نل کھولے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ہمارا اپنا بھی یہی حال ہے اول توماسک پہن پہن کر اتنا عادی ہو چکے ہیں کہ اب تو ماسک پہنا ہو ا ہو تواتارنا ہی بھول جاتے ہیں۔گھرمیں داخل ہوں گے تو ہیلمٹ تواترجائے گا مگر پہنا ہوا ماسک بھول جائے گا۔ بچے یاد دلاتے ہیں ماسک تو اتاریں۔ مگر ما بدولت عرض گذار ہوتے ہیں چلو بھولا ہوا ہے تو اچھا ہے۔جب ہماری حالت یہ ہو کہ چہرے پر عینک سجی ہو اور آنکھیں اپنی عینک تلاش کر رہی ہوں۔ گھر والے پوچھیں کیا ہوا آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس پر ہم کہہ دیں یار وہ نگوڑی ماری عینک کہیں رکھ دی ہے۔اس پر کمرے میں ہنسی کا فوارہ پھوٹ نکلتا ہے۔ہم حیران ہو کر دائیں بائیں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کچھ غلطی ہوئی توہے پھر یقینِ واثق ہوتا ہے کہ ہمیں سے ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عینک آپ کی ناک پر تو دھری ہے۔اسی لئے کہا ہے کہ اگر ماسک پہنا ہو اور اتارنا بھول جائے تو اس سے اچھی کیا بات ہے۔ایک جنازے میں جانا ہوا۔وہاں جنازہ کے حاضرین سے ہاتھ ملانا پڑے۔ جنازہ گاہ سے باہر نکلے تو ہاتھوں میں الرجی سی محسوس ہونے لگی۔گویاریڈ لائٹ جلنا شروع ہوئی۔ یاد آیاکہ ہاتھ نہیں ملانا تھا۔مگر ہم لوگوں کو مجبوری کے عالم میں بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔انتہائی محتاط لوگ جن کو اپنی گذری عمر کے کارن اپنی جان زیادہ عزیز ہوتی ہے وہ توجنازوں میں سرے سے شرکت ہی نہیں کرتے۔ بہت قریب کا کوئی بندہ خدانہ کرے انتقال کر جائے تو جانا پڑتا ہے۔میں جب باہر نکلاتو پانی کا نلکہ ڈھونڈ رہا تھا۔ تاکہ ہاتھ دھو کر اپنے دل کو اپنی سی تسلی دوں۔ مگر نل تو خیر کہیں نظر نہ آیا۔مگر پاس بینک کا گارڈ کھڑاتھا۔ حالانکہ اس کے پاس ہونا چاہئے۔مگر اس گیٹ پر اس کے ہاتھ میں سینی ٹائزر کی بوتل نہ تھی۔ میں نے دور سے اس کو دونوں ہاتھ دھونے کااشارہ کر کے سمجھایا۔اس پر وہ میرے وہاں پہنچنے قبل ہی اندر بینک میں گیا اور سیناٹزر چھڑکا ؤ کی بوتل لے آیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہیں اس کے آگے ہاتھ یوں کئے جیسے ابھی ہتھ کڑیاں پہنائی جائیں گے۔ہاتھ دھوئے اور آگے بڑھ گئے۔بلکہ خطامعاف آج کل تو بینکوں اداروں کے گیٹ پر کھڑے سیکورٹی گارڈ وغیرہ نے بھی سینی ٹائزر کو پاس رکھنا چھوڑدیا ہے۔ وہ اب اس میں اتنی دلچسپی نہیں لیتے۔ شاید اس وجہ سے کہ ملک میں سات کروڑ لوگوں نے ویکسین لگا لی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا۔ ٹل تو گیا اس میں شک نہیں مگر باقی لوگوں نے جو ویکسین نہیں لگائی اس کاکیا کریں گے۔عوام نے توبسترِ مرگ پر جانا قبول کر لیاتھا۔ مگر کورونا کوتسلیم کرنا ان کی کتاب میں نہ تھا۔ لیکن اب جو سرکاری عمارتوں سے نت نئے پروانے جاری ہورہے ہیں۔جو انجکشن نہیں لگائے گا اس کی تنخواہ بند ہوگی اس کا شناختی کارڈ اور موبائل سم بلاک کردیئے جائیں گے۔ اس کو ایئر پورٹ پر دوسرے ملک جانے کی اجازت نہ ہوگی۔اس طرح کی بے شمار پابندیاں سامنے آئی ہیں۔ سو عوام الناس کا بھلاہوا۔خود چل کرآتے ہیں ویکسین لگاتے ہیں۔پھر اگر لائن میں کھڑے کھڑے سٹاک ختم ہوجائے تو اس پر احتجاج بھی کرتے ہیں۔یہ تو بہت اچھی بات ہوئی۔