قابل ٹیکس‘ ناقابل ٹیکس

ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل کرنے کی بجائے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے ذریعے آمدنی کے طبقے سے زیادہ ٹیکس وصولی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی شرح سے ٹیکس ادا کر رہا ہے جبکہ ایسے کاروباری اور تجارتی صارفین موجود ہیں‘ جن کی آمدنی تو زیادہ ہے لیکن وہ اِس کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اِس سلسلے میں ہوئی حالیہ پیشرفت کے مطابق وفاقی حکومت نے ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح میں اضافہ کرنے (ٹیکس بیس کی توسیع) کیلئے ’نان فائلر‘ صنعتی اور تجارتی اداروں کو بجلی اور گیس کی فراہمی پر پانچ سے سترہ فیصد تک اضافی سیلز ٹیکس کیلئے نامزد کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ انکم یا سیلز ٹیکس رولز پر جو صنعتی اور تجارتی ادارے موجود نہیں ان پر اضافی ٹیکس لگانا پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے بجٹ میں دی گئی تجاویز میں سے ایک تجویز تھی۔ اعلامیے کے مطابق صنعتی یا تجارتی کنکشن رکھنے والے افراد کیلئے بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی پر قابل ادائیگی ٹیکس اور وفاقی ٹیکس کے علاوہ مجموعی بل کی رقم پر اضافی سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اضافی ٹیکس صرف اُن اداروں پر لاگو ہوگا جنہوں نے سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل نہیں کیا یا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے زیر انتظام فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں چنانچہ ماہانہ بنیادوں پر غیر رجسٹرڈ صنعتی اداروں کو سپلائی پر سترہ فیصد کی یکساں شرح لاگو کی گئی جو غیر رجسٹرڈ صنعتی کنکشن رکھنے والے افراد کو بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی پر قابل ادائیگی ٹیکس کے علاوہ ہوگی تاہم غیر رجسٹرڈ تجارتی اداروں کیلئے ٹیکسوں کے مختلف نرخ نافذ کئے گئے جس کے تحت دس ہزار ایک روپے سے بیس ہزار تک کے بجلی بل پر سات فیصد جبکہ دس ہزار روپے تک کی رقم پر پانچ فیصد ”اضافی سیلز ٹیکس“ لاگو ہوگا۔ اسی طرح اگر بل کی رقم بیس ہزار سے تیس ہزار ہوگی تو ٹیکس کی شرح دس فیصد‘ تیس سے چالیس ہزار پر بارہ فیصد جبکہ چالیس سے پچاس ہزار تک کے بل پر پندرہ فیصد اضافی ٹیکس عائد ہوگا۔ علاوہ ازیں تمام غیر رجسٹرڈ تجارتی اداروں کیلئے پچاس ہزار ماہانہ سے زائد بل کی رقم پر سترہ فیصد اضافی سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا۔صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حکومت نے منی سروس بیورو (ایم سی بیز)‘ ایکس چینج کمپنیوں‘ منی ٹرانسفر آپریٹر مثلاً ویسٹرن یونین‘ منی گرام اور ریا فنانس وغیرہ کے ذریعے ارسال کردہ پچاس لاکھ روپے تک کی رقم کو تحقیقات سے چھوٹ دی ہے۔ اس وقت یہ سہولت صرف بینکاری ذرائع سے بھیجی گئی رقم پر تھی۔ آرڈیننس نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو اپنا ریکارڈ یا اس کے پاس موجود کوئی معلومات‘ اِس کے اپنے اقدام یا ایف بی آر کی درخواست پر شیئر کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایف بی آر اس طرح کی معلومات متعلقہ انکم ٹیکس اتھارٹی کو بھیج سکتا ہے جو معلومات کو انکم ٹیکس کے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ آرڈیننس نے نادرا کو اشاریہ آمدنی اور ٹیکس واجبات کا حساب کرنے کی بھی اجازت دی جس سے ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادا کئے گئے ہوائی سفر کے اخراجات اور ظاہر شدہ آمدنی اور اثاثوں جیسے اخراجات کے مابین ایک تعلق قائم کرنا ایف بی آر کی جانب سے مزید تحقیقات کیلئے رسک سکور بن سکتا ہے۔ نادرا کو ٹیکس دہندگان کے ڈیٹا تک رسائی دے کر ایف بی آر نے ”سیکشن ایک سواٹھانوے“ بھی ختم کردیا جس کے مطابق اگر کوئی فرد کسی شخص کی کسی خاص خفیہ معلومات کو ظاہر کرتا ہے وہ اس جرم پر کم از کم پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کی قید یا دونوں کے ساتھ سزا وار ہوسکتا ہے علاؤہ ازیں پچتھہر فیصد یا اس سے زیادہ تنخواہ کی آمدنی ہو تو کم از کم جرمانہ دس ہزار روپے ہوگا جبکہ دیگر معاملات میں پچاس ہزار روپے ہوگا۔ٹیکس کی حالیہ اصلاحات میں سب سے زیادہ متنازعہ گھر سے کام کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنا ہے۔ وفاقی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے پانچ سے پینتیس فیصد اضافی ودہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا ہے جو ایسے پیشہ ور افراد سے وصول کیا جائے گا جو فعال ٹیکس لسٹ میں موجود نہیں اور بجلی کے گھریلو کنکشن رکھتے ہوئے رہائشی مقام سے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ان پیشہ ور افراد میں اکاؤنٹنٹس‘ وکلا‘ ڈاکٹرز‘ ڈینٹسٹس‘ طبی ماہرین‘ انجینئرز، آرکیٹیکٹس‘ انفارمشین ٹیکنالوجی کے ماہر‘ ٹیوشن پڑھانے والے تربیت کار (ٹرینیرز) و دیگر شامل ہیں۔ اس طرح اکٹھا کیا جانے والا ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کے قابل ہوگا تاہم یہ واضح نہیں کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں رہائشی مقام سے کام کرنے والے افراد کی نشاندہی کس طرح کریں گی۔ ایف بی آر گیس اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کو کسی بھی ایسے شخص کو سپلائی روکنے کی ہدایت کرسکتا ہے جو درجہ اول کا ریٹیلر ہو لیکن اس نے اپنے آپ کو سیلز ٹیکس کیلئے رجسٹرڈ یا ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ نظام میں ضم نہ کروایا ہو تاہم رجسٹریشن یا انضمام کے بعد ایف بی آر سیلز ٹیکس عمومی حکم نامے کے ذریعے ان کے گیس یا بجلی کے کنکشن کی بحالی کی ہدایت دے گا۔ آرڈیننس کے ذریعے ان لوگوں پر جرمانے میں وسیع نظر ثانی کی گئی جو ایف بی آر کے ساتھ اپنے کاروبار کو مربوط کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کے تحت پہلے ڈیفالٹ کیلئے کم از کم جرمانہ پانچ لاکھ جبکہ تیسرے ڈیفالٹ کیلئے زیادہ سے زیادہ جرمانہ تیس لاکھ روپے ہے۔ اگر ایسا شخص چوتھے ڈیفالٹ کیلئے جرمانہ عائد کرنے کے پندرہ دن کے اندر اپنے کاروبار کو ایف بی آر کے ساتھ مربوط کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے کاروباری احاطے کو اس وقت تک سربمہر (سیل) کر دیا جائے گا جب تک وہ اپنے کاروبار کی جملہ تفصیلات اور کھاتوں کو ایف بی آر میں درج نہیں کروا لیتا۔ ٹیکس قواعد لاگو کرنے کیلئے بجلی و گیس کے بلوں کا سہارا لینا بظاہر جس قدر آسان اور ممکن دکھائی دے رہا ہے حقیقت میں یہ اِسی قدر مشکل و ناممکن ہے کیونکہ ایسے افراد اور اداروں کی شناخت اپنی جگہ پیچیدہ عمل ہے۔ آمدنی کے ذرائع قابل ٹیکس اور ناقابل ٹیکس ہو سکتے ہیں جنہیں یوٹیلٹی بلوں سے مشروط کرنے کی بجائے اِن کی کھوج اور لین دین کے نظام کو دستاویزی کرنا زیادہ ضروری اور زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔