سینئر صحافی،ممتازتجزیہ نگار اور افغان امورکے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی ویسے تو کئی خصوصیات کے حامل تھے لیکن ان کی ایک بڑی خصوصیت ان کا اتنا بڑا نام کمانے کے باوجود تکبر اور رعونت کے مرض سے کوسوں دور ہونا تھا حالانکہ ہمارے ہاں معمولی اختیار یا پھر تھوڑی بہت شہرت ملنے کے بعد گردنوں میں سریے کا بھر جانا معمول کی بات ہے۔ اس بات میں کوئی دو آرا ء نہیں ہیں کہ افغانستان،قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خوا کے امور کے حوالے سے ا ن کی رحلت سے پیدا ہونے والے خلاء کو کرنا آسان نہیں۔ اپنے جونیئرصحافیوں کی راہنمائی اور تربیت، انہیں مختلف امور پر ٹپس دینے میں وہ نہ تو کوئی عار محسوس کرتے تھے اور نہ ہی انھوں نے اس حوالے سے کبھی کسی بخل سے کام لیا۔ رحیم اللہ صاحب کی اپنے پیشے کے ساتھ کمٹمنٹ اور غیر جانبداری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بار بار کی آفرز اور مواقع ملنے کے باوجود کبھی بھی کسی سرکاری میڈیا پلیٹ فارم کو جوائن نہیں کیا حالانکہ انکے لئے ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا رحیم اللہ صاحب کی پیشہ ورانہ ایمانداری کا ایک اور ثبوت ان کا اپنے عہدے اور تعلق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بچوں کیلئے وقت کے حکمرانوں سے کوئی رعایت نہ لینا تھا۔رحیم اللہ یوسفزئی کی ایک اورنمایاں خصوصیت ان کا بیک وقت تین زبانوں انگریزی، اردو اور پشتو میں صحافت کرنا تھا۔ ان کو حیرت انگیز حد تک ا ن تینوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا حالانکہ پٹھانوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ چاہے بہت ہی اعلیٰ پائے کی اردو بولتے اور لکھتے ہوں لیکن پھر بھی ان سے کبھی کبھار مونث مذکر یا پھر تلفظ کی غلطی ہوہی جاتی ہے لیکن رحیم اللہ صاحب کی اردو سن اور پڑھ کر ذرا بھی یہ احساس نہیں ہو تا تھاکہ ان کا تعلق ایک ٹھیٹ یوسفزئی پٹھان قبیلے سے ہے۔ اسی طرح انکی انگریزی طرز تحریر اور انگریزی بول چال سے بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ اتحصیل تھے۔ رحیم اللہ یوسفزئی صاحب کی وسعت قلبی، شفقت اور جونیئر لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا اندازہ جہاں پشاور کے تقریبا ًہر صحافی کے اس اعتراف سے لگایاجاسکتا ہے کہ وہ رحیم اللہ صاحب کی انگلی پکڑ کر دنیائے صحافت میں آیاہے وہاں اس بات کا میں خود بھی شاہد ہوں‘ جب راقم الحروف نے روزنامہ آج میں کالم لکھنا شروع کیا تو رحیم اللہ صاحب سے اس عرصے میں جب بھی ملاقات ہوتی تھی وہ نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے بلکہ قیمتی ٹپس دے کر راہنمائی بھی فرماتے تھے۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے جب میں نے فون کرکے انہیں انگریزی اخبار دی نیوز میں مضمون نگاری کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے حسب روایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ سلسلہ شروع کرنے کی شہہ دی بلکہ مضمون لکھ کر انہیں بھیجنے کیلئے بھی کہا جو میں نے لکھ کر انکو ای میل اور وٹس ایپ کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ ان کیلئے اپنی بے پناہ مصروفیات اور نا سازی طبع کے باعث نہ صرف میرا مضمون دی نیوز میں چھاپنا مشکل ہوگا بلکہ شاید ان کیلئے اس کا پڑھنا بھی ممکن نہیں ہو گا لیکن تیسرے یا چوتھے دن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دی نیوز نے میرا یہ مضمون ادارتی صفحے پر سب سے اوپر شائع کر دیا تھا اس پر جب میں نے انہیں شکریے کیلئے ٹیلی فون کیا تو انھوں نے برا مناتے ہوئے کہا کہ اس میں شکریے کی کیا بات ہے آپ کا مضمون قابل اشاعت تھا تب ہی تو وہ شائع ہو ا،میراتیسرامضمون ملنے کے بعد انھوں نے مجھے کہا کہ اب آپ کو مجھے مضمون بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اب آپ براہ راست ایڈ یٹوریل پیج کی انچارج کو اپنا مضمون ای میل کردیا کریں میری ان سے بات ہو گئی ہے وہ آپکے مضامین شائع کر دیا کریں گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ا پنے جونیئرز کی کس حد تک حوصلہ افزائی اور عملی مدد کیا کرتے تھے۔