افغانستان: داخلی حالات‘خارجی مؤقف  

افغانستان کے حوالے سے صورتحال میں بھارت سب سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے جس نے اطلاعات کے مطابق افغانستان میں تین سے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور طالبان کی آمد کے بعد سے بھارت کو اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ بھارت افغانستان سے مایوس ہے اور اُس نے اِس مایوسی بھرے جذبات سے طالبان کو آگاہ بھی کر دیا ہے تاہم وہ اپنی مایوسی کے لئے دیگر جواز تلاش کر رہا ہے جیسا کہ مخلوط تعلیم کی اجازت نہ دینا‘ خواتین کی وزارت ختم کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواز بناتے ہوئے بھارت نے طالبان سے بات چیت کو مشکل قرار دیا ہے اور اکثر بھارتی تجزیہ کار طالبان کی صفوں میں اختلافات کی خبروں کو غیرضروری طور پر اُچھالتے ہیں لیکن افغانستان کے بارے میں زہراگلنے سے بھارت کی حیثیت مضبوط ہونے سے زیادہ کمزور ہو رہی ہے۔طالبان سمجھتے ہیں کہ بھارت کی افغانستان میں سرمایہ کاری کا محرک امریکہ تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں سرمایہ کاری کے عوض بھارت نے پاکستان کے خلاف افغان وسائل اور سرزمین کا استعمال کیا‘ جس کے بعد اُس کا احسان نہیں رہا۔  افغانستان کے منظرنامے میں غمزدہ بھارت  اب ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کو بروئے کار لانے  کی کوششوں میں مصروف ہے۔  یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ حالات میں ایران کا طالبان کے حوالے سے رویہ مختلف ہے  جو ایک مثبت نشانی ہے۔  اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کام ٹریڈ (ComTrade) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے سال 2020ء میں ایران سے 37 کروڑ (371.83ملین) ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں جبکہ ایران پاکستان سے دالیں‘ پھل‘ کاغذ مال
 مویشی اور دیگر اشیاء درآمد کرتا ہے جن کا مجموعی حجم 30کروڑ (300ملین) ڈالر کے آس پاس رہتا ہے۔اب جبکہ افغانستان میں امن کے قیام کے امکانات روشن ہوگئے ہیں تو خطے کے تمام ممالک کے باہمی روابط کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ افغانستان میں نئی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور ان معاہدات پر بھی عمل کرے جو سابقہ افغان حکومت نے کئے ہیں۔ دوسری طرف طالبا ن نے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ معاشی اور اقتصادی روابط مستحکم کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان کیلئے تو یہ بہت ہی خوش کن امر ہے تاہم دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی افغانستان  کے تعلقات معمول کے مطابق ہو سکتے ہیں جس کا بھارت کو بھی فائدہ ہوگا تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ بھارت تعصب کی بجائے زمینی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی مرتب کرے۔ پاکستان نے کبھی بھی افغانستان اور بھارت کے تعلقات پر تنقید نہیں کی ہے اگر یہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ایجنڈے کے تحت نہ ہوں۔ تاہم بد قسمتی سے بھارت نے افغانستان میں جو سرمایہ کاری کی یا یہاں پر جو سفارتی سرگرمیاں جار رکھیں وہ افغانستان کی ترقی و خوشحالی کی بجائے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ایجنڈے کے تحت تھیں اس ضمن میں پاکستان نے افغان حکومت کو بار بار بھارت کے مذموم عزائم سے خبردار کیا تاہم وہ پاکستان کی بات ماننے کیلئے تیار نہیں تھے، اب پہلی مرتبہ یہ امکانات بڑھ گئے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معمو ل  کی تجارتی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ افغانستان سے پھل اور دیگر اجناس کی پاکستان آمد اور یہاں سے اشیائے خورد نوش کی ترسیل جاری ہے  اور پوری دنیا نے اگر طالبان کے ساتھ روابط بحال کئے اور اس کے ساتھ تجارت کے راستے کھول دئیے تو پھر یہاں پر معاشی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگا جس سے پاکستان بھر پور استفادہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔