دل پشو ری 

پشاور کی بس رپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) خیبر پختونخوا کا روشن اور تابنا ک چہرہ ہے جب کبھی اس میں سفر کر تا ہوں خیا لوں میں کھو جا تا ہوں کبھی ہم بنکا ک، بیجنگ اور فرینکفرٹ کے میٹرو اور لندن کے ٹیوب کو رشک کی نگا ہ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے آج ہم پشاور میں میٹرو اور ٹیوب جیسے ذرائع سفر سے لطف اندوز ہورہے ہیں الیکٹرانک ٹکٹ‘ صاف ستھری بسیں‘ صاف ستھرا سفر‘ اس پر روپے اور پیسے کی حیرت انگیز بچت اس کا نام ہے خدا دے اور بندہ لے میں خیا لوں میں کھویا ہوا تھا بس آنکھ جھپکتے ہی حیات آباد کے آخری سٹیشن پر آگئی بس سے اتر نے کو جی نہیں چاہ رہا تھا‘ باہر سے آنیوالے کسی بھی شہر کو ٹرانسپورٹ کی وجہ سے پہچا نتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ اچھی ہو تو شہر کے گر ویدہ ہو جا تے ہیں‘ ٹرانسپورٹ کا سسٹم خراب ہو تو دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ کر تے ہیں کہ کس مصیبت میں پھنس گئے۔میں نے تین سال پہلے جر من دوست کے ساتھ حا جی کیمپ اڈہ سے حیات اباد کا رخانہ مارکیٹ کا سفر کیا۔ یہ میرے دوست کی خواہش تھی کہ شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا تجربہ کیا جا ئے منی بس مسافر وں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا پشتو فلم کا گا نا ”یمہ دٹرک ڈرائیور“ فل والیوم میں بج رہا تھا ایک کلینر اونچی آواز میں کرایہ، کرایہ کی جگہ کارئیے کارئیے کی سریلی آواز یں لگا رہا تھا دوسرا کلینر دروازے پر کھڑا زور زور سے بس کی باڈی کو بجا تا اور اُدریگہ استاذکے ساتھ زہ استاذ کا شور مچا رہا تھا جر من دوست اس کلچر سے لطف اٹھا رہا تھا ہم نے 30منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جر من دوست نے کہا ہم اتنی مدت میں فرنکیفرٹ سے ہا ئیڈل برگ پہنچ جا تے ہیں شکر ہے کہ میرے دوست کو اردو، پشتو اور ہند کو نہیں آتی تھی ورنہ وہ یہ بھی نوٹ کرتا کہ بس کا کلینر کچہری سٹاپ کو ”قاچرو“ کہتا ہے ٹاون سٹاپ کو ”ٹون“ کہتا ہے جر من سیاح کو بڑی حیرت اس پر ہوئی کہ بہت سے لو گ بس کے چمن میں چھت پر لگے ہوئے دستے پکڑ کر سفر کر رہے ہیں اگر کسی سٹاپ پر ایک سیٹ خا لی ہو تی ہے تو آگے پیچھے کھڑے ہوئے چار بندے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں بس سے اتر نے کے بعد میں نے اپنے دوست کو بتا یا کہ میرا ساتھی ایسے مواقع پر مجھے آگے کر کے زور سے کہتا ہے ”حاجی صاحب تم بیٹھو“آس پا س کے چار بندے پیچھے ہٹتے ہوئے کہتے ہیں ”حا جی صاحب کو بیٹھنے دو“ حقیقت یہ ہے کہ میں داڑھی اور رومال کی وجہ سے حا جیوں جیسا لگ رہا تھا اور اس حلیے کی بدولت منی بس میں سیٹ مل جا تی تھی میں نے اپنے جرمن دوست کو بتا یا کہ ہمارا ماضی درخشان تھا 1971ء میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی صاف ستھری بسیں چلتی تھیں ان میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی ہوتی تھیں۔ کلینر صاف ستھرا وردی والا بندہ ہوتا تھا چپ کرکے آپ کو ٹکٹ تھما تا اور کچھ بولے بغیر کرایہ لیتا تھا سٹاپ پر رکنے اور سٹاپ سے آگے بڑھنے کا کام ڈرائیور خود جا نتا تھا۔بس کی باڈی کو بجا نے اور زور زور سے آواز لگا نے کی ضرورت نہیں پڑ تی تھی۔ سٹاپ پر کھڑے لو گ بھی بس کے نمبر کو دیکھ کر پہچان لیتے۔ آواز کی آلو د گی نہیں ہو تی تھی چمن میں کوئی مسا فر کھڑا نہیں ہوتا تھا جی ٹی ایس کو ختم کر دیا گیا تو آرام دہ سفر کا باب بھی بند ہوا اور شہر کے اندر منی بسوں کا سیلا ب آیا اس سیلا ب میں سب کچھ چلتا ہے میرے جر من دوست نے پشاور کے ما ضی کا اچھا تا ثر لیا مگر ہمارے سامنے جو تجربہ تھا وہ کسی بھی لحا ظ سے قابل رشک نہیں تھا پشاور کے با سیوں کو وہ دن بھی یا د ہیں جب ہشتنگری اور کا بلی گیٹ پر تا نگوں کے اڈے ہوتے تھے دس بارہ تا نگے کھڑے رہتے۔شہر سے صدر کا سفر تا نگوں میں ہو تا تھا۔ 4آنہ فی سواری کے حساب سے چھ سواریوں کا کرا یہ ڈیڑھ روپے بنتا تھا کوچوان چا بک لہرا تا تو ایسے لگتا تھا گویا اس کو دنیا جہاں کی سب سے بڑی دولت مل گئی ہے۔ نا ز سینما روڈ پر بخاری پلا ؤ اور قصہ خوانی بازار میں تاوانی پلا ؤ 8آنے میں آتا تھا  فردوس سینما روڈ پر جلیل کبا بی کے ہاں 3 روپے میں چھ بندے کباب کے لنچ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔پشاور غریبوں کاشہر کہلا تا تھا آج میں نے بی آر ٹی کے سفر کا جو لطف اٹھا یا بڑا مزہ آیا صحیح معنوں میں ”دل پشوری“ ہو گئی۔ دل پشوری کی ترکیب ہی ایسی ہے جب آپ کو بے پناہ لذت اور خو شی یا مسرت حا صل ہو تو اس کیفیت کو ”دل پشوری“ کہتے ہیں۔ بی آر ٹی میں سفر کر تے ہوئے میں نے اپنے جر من دوست کو فون کر کے صورت حال سے آگا ہ کیا اس کو ایک بار پھر پشاور آکر ”دل پشوری“ کر نے کی دعوت دی۔