عوامی مسئلہ

حالانکہ ہشت نگری پھاٹک پر جہاں سوزوکیاں کھڑی ہوتی ہیں وہا ں چنگ چی بھی کافی تعداد میں ہوتی ہیں۔جو دلہ زاک روڈ پر کبوتر چوک تک آتی ہیں۔دلہ زاک روڈ والے شہری تو ان میں آسانی سے سوارہوکر سڑک کے آخر تک رنگ روڈ سے پہلے اتر جاتے ہیں۔مگر بُدھو ثمر باغ والوں کی اگلی منزل بہت مشکل ہوتی ہے۔رنگ روڈ سے ثمرباغ تک جاتی ہوئی پانچ میل کی اس سڑک پر کبھی کبھار سواریوں والی سوزوکی گاڑی دکھائی دے جاتی ہے۔ جس پر سواریاں اوپر تلے ٹھنسی ہوتی ہیں۔باقی جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ گاڑی کے باہر لٹک رہے ہوتے ہیں۔یہاں چنگ والوں نے کوشش کی کہ بُدھو ثمرباغ تک اپنی سروس شروع کریں۔ مگر جب وہ اس کام کا آغاز کرتے ہیں۔سوزوکی ڈرائیور ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ یہاں یا تورکشہ کاانتظار کرنا ہوگا یا پھر رنگ روڈ سے پیدل ہی اپنی منزل کو روانہ ہوں گے۔اکثر تو رنگ روڈ کے موڑ پر سواریاں سوزوکی کی راہ دیکھ دیکھ کر کسی موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھ کرکچا پل تک پہنچ جاتی ہیں۔شام کا اندھیرا ہوتے ہی اگر کوئی رکشہ ڈرائیور گھر جا رہاہو تو راہ میں کھڑے ان شہریوں کو اٹھا لیتا ہے۔یہ سڑک اندرون گاؤں سے ہوتی ہوئی نادرن بائی پاس تک اور پھر اس کے ساتھ چرگو کلے کو پیچھے چھوڑ کر بخشی پل چارسدہ روڈ سے بھی جا ملتی ہے۔مگر یہاں سے اکثر لوگ صرف بُدھو تک ہی جاتے ہیں۔اگر یہاں حکومت کی مداخلت سے چنگ چی سروس شروع ہوجائے تو اس میں چنگ چی رکشہ والوں کا روزگا ر بھی بڑھ جائے اور ساتھ ہی عوام کو سہولت بھی ہاتھ لگ جائے گی۔ ہشت نگری پھاٹک کے اڈے سے سوزوکی سٹارٹ ہوتی ہے اور سواری کوسیدھا لے جاکر ثمرباغ میں اتار دیتی ہے۔۔یہاں کے لوگوں کی بدقسمی ایک نہیں۔یہاں اور مسائل بھی ہیں۔ اکثر تو رنگ روڈ سے لوگ پیدل ہی میلوں چلتے ہیں اور ثمر باغ تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت ان کیلئے پیدل چلنا از حد دشوار ہوجاتا ہے۔جب سڑک کے ساتھ ساتھ جاتا ہوا نالہ اُبل کر باہر بہناشروع کر دیتا ہے۔اس وقت ان تمام راہگیروں کیلئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ ٹخنوں تک اپنے پاؤں ایک میل پیدل چلتے ہوئے گیلے کریں کپڑے گندے کریں اور گھر جائیں۔ اس دوران میں اگر پاس سے کوئی گاڑی گذر جائے تو اس کے ٹائروں سے نکل کر اوپر آتے ہوئے گندے پانی سے باقی کے کپڑوں پر بھی ڈول بھر پانی پڑتا ہے۔کپڑے گندے ہوتے ہیں۔مگر مجبوری کے کارن سب لوگ یہاں سے پیدل روانہ ہونے پر اور گھر تک پہنچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب ہر ایک کے پاس گاڑی تو نہیں۔ وہ رکشہ ہی کروائے گا۔ مگر رکشہ بھی تو اس سڑک پر کافی نہیں۔ پھر بعض لوگ سوزوکی گاڑی کا انتظار کرنے سے زیادہ بہتر یہ سمجھتے ہیں کہ پیدل مارچ کرکے پانچ میل کا یہ فاصلہ طے کریں۔ مگر جب خواتین رنگ روڈ کے موڑپر سوزوکی کے انتظار میں کھڑی ہوتی ہیں تو یہ منظر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔اسی لئے اگر حکومتی مداخلت سے یہاں چنگ چی سروس شروع ہوجائے تو یہاں کے مقامی لوگوں کابہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ رنگ روڈ کے ساتھ ہی دو قدم نیچے اتریں تو سڑ ک کے ساتھ نہر جاتی ہے۔جس کاگندا پانی مختلف ندی نالوں کی صورت میں اس پورے علاقے کے کھیت کھلیان کو سیراب کرتا ہے۔ہمارے ہاں یا تو بارانی پانی ہے یا پھر دریا ہیں اور زیادہ تر نہری پانی ہے جو کھیتوں کی آبیاری کر تا ہے۔مگر اس نہر میں ہمارے بھائی لوگ دنیا جہان کا گند کوڑا کرکٹ اور جانوروں کی لد پھینک دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ نہر گند سے بھر جائے تو اس کا پانی باہر اُبلنا شروع ہوجاتا ہے۔یہاں قرب و جوار میں گائے بھینسں کے باڑے ہیں جہاں بھینسوں کا گوبر اٹھا کردور کہیں ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔بس پاس دوچار قدم لے کرہاتھ گاڑی کے ساتھ اسی نہر میں پھینک دیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے دلہ زاک روڈ تک جانے والی اس نہر میں کوڑا کرکٹ اور فلش سسٹم کی گندگی تیر رہی ہوتی ہے۔اس سڑک پرگاڑی کے انتظار میں کھڑے لوگ بیچارے اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ اکثرتو یہاں کے چھوٹے بچے مزدوری کرنے کیلئے شہر کارخ کرتے ہیں۔وہ جب واپس آتے ہیں تو اس راستے میں گھر تک پہنچتے پہنچتے کسی نہ کسی کے ساتھ سوار ہو جاتے ہیں۔موٹر بائیک والا ان کواگلے سٹاپ پراُتار دیتا ہے اور پھر یہ بچہ لوگ دوسرے بائیک والے کو اشارہ کر کے روکتے ہیں اور نیک لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر اپنے گھر کو پہنچتے ہیں۔یہاں عورتوں کے علاوہ بڑے بوڑھے لوگ پیدل جاتے ہیں۔ جن پر ترس کھاکراگر کسی نے ان کو اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی پیش کش کردی تو وہ بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔ورنہ یہ بھی راہ گذرتے موٹر بائیک کو ہاتھ دے کر رکنے کی درخواست کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بائیک سوار نہ رکیں تو یہ لوگ اپنا سامان کاندھے پر لاد کر گھر کی راہ نکالتے ہیں۔