میانہ روی

انگریزی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ جس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ سچ نے ابھی بوٹ پہنے نہیں ہوتے کہ جھوٹ نے دنیا کا آدھا چکر لگا لیا ہوتا ہے نیوزی لینڈ کی دیکھا دیکھی انگلستان نے بھی اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا اغیار چاہتے ہیں کہ دنیا میں یہ تاثر عام کر دیا جائے کہ پاکستان میں امن و امان کی حالت ٹھیک نہیں ہے تاکہ وہ بیرونی سرمایہ دار جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے باز آ جائیں اور پاکستان کی معیشت کو مزید نقصان پہنچے۔ امریکہ کے مقتدر حکومتی حلقے افغانستان کے بارے میں پاکستان پر الزام لگاتے وقت نہ جانے یہ حقیقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں امریکہ سے زیادہ دوغلا کون ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی حکومت امریکی اشاروں پر چلنے سے انکار کرے تو اسے غیر مستحکم کرنے کیلئے طرح طرح کی سازشیں شروع کر دیتا ہے۔جب سے ہمارے حکمرانوں نے ڈو مور کے جواب میں نو مورکہنا شروع کر دیا تو امریکہ کی پالیسی ہی بدل گئی۔ 24 ستمبر کو وزیراعظم صاحب اقوام متحدہ سے ٹیلی ویژن پر ورچوئل خطاب کرنے والے ہیں بہتر تو یہ تھا کہ وہ خود بنفس نفیس اقوام متحدہ تشریف لے جاتے جسطرح کہ ترکی کے صدر شرکت کر رہے ہیں وہ اس لئے کہ آج کل امن عامہ کے لحاظ سے اگر کوئی سب سے زیادہ اہم معاملہ دنیا کو درپیش ہے تو وہ افغانستان ہے اور اس کے اندرہونے والے کسی بھی واقعے کا سب سے پہلے اچھا یا برا اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ببانگ دہل اس حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے کہ اس وقت افغانستان کی معیشت کی بحالی کیلئے اسے دنیا کے ممالک کی مالی امداد کی ضرورت ہے جو اسے دل کھول کر مہیا کی جائے تاکہ اس کا مالی نظام اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اس کے صحت عامہ کے ادارے تعلیمی درسگاہیں اور امن عامہ کے قیام کے ذمہ دار ادارے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے قابل ہو سکیں افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کے خیال میں دنیا کے ممالک افغانستان کو تسلیم کرنے میں جتنی تاخیر کا مظاہرہ کریں گے اس سے افغانستان کے اپنے پاؤں ہر کھڑے ہونے میں اتنی ہی دیر لگے گی۔ ماضی بعید کو چھوڑئیے ماضی قریب پر ذرا نظر دوڑائیے گزشتہ نصف صدی سے اسے مختلف ممالک اپنے پاؤں کے نیچے روند رہے ہیں کسی بھی ریاستی ادارے کو تو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔گولیوں کی بوچھاڑ میں بچے پیدا ہوئے اور ان کے ہاتھوں میں قلم کی بجاے کلاشنکوف تھما دی گئی ہمیں تو نظر نہیں آ رہا کہ موجودہ سپرپاورز میں کوئی بھی ملک افغانستان کے باسیوں کی حالت زار پر رحم کرے گا کیونکہ قرائن و شواہد یہ بتاتے ہیں کہ جس روش پر وہ چلے ہوئے ہیں فی الحال بہت کم امکان ہے کہ وہ اسے جلدی ترک کر دیں گے ان میں سے ہر ایک اپنے مخصوص سیاسی عزائم کا غلام نظر آ رہا ہے یہ موجودہ افغان حکمرانوں اور رہنماؤں کی ذمہ واری ہوگی کہ وہ آج کے زمینی حقائق کے مطابق سردست دست ایسی حکمت عملی پر گامزن ہوں کہ جو حقیقت پسندی اور عملیت پر مبنی ہو تاریخ گواہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اعتدال کا دامن چھوڑا جائے تو اس کے نتائج منفی ہوں گے جیو اور جینے دو کا شعار ہمیشہ ان ممالک کیلئے سود مند ثابت ہوا ہے کہ جو سیاسی معاشی اور تعلیمی لحاظ سے کمزور ہوں آپ کے سامنے تازہ ترین مثال چین کی ہے۔ 1970 میں یہ ملک مفلوک الحال تھا اس وقت سے لے کے 2014 تک اس نے غیر ضروری طور پر اغیار سے کسی قسم کے کسی بھی مسئلے پر پنگا لینے سے گریز کیا اور اپنا سر جھکا کر اپنی تمام تر توجہ اور انرجی نیشن بلڈنگ پر مر کوز کی اور آج وہ جس مقام پر ہے وہ تمام دنیاپر عیاں ہے۔