بات یہ ہے کہ شہرِ دلبراں میں جب کسی سے ملنے کے لئے نکلیں۔پھر کسی کی شادی ہو یا میل ملاپ کا اور موقع ہو۔گھر سے نکلتے ہوئے سو سو بار سوچنا پڑتا ہے۔راستہ منتخب کرنا پڑتا ہے۔دل ہی دل میں نقشہ بنا کر اس روڈ میپ پر جانا ہوتا ہے۔یہ اور بات کہ جن نقشِ پا کے اوپر آپ چلیں ہوں وہ ساری حکمت عملی فیل ہوجائے۔ اس راستے میں جس کوآپ نے حفظ و امان کا بہتا ہوا دریا سمجھا ہو رش سے بھرا پُرا ہو۔آپ کی توقع کے الٹ وہا ں آج ہی راستہ بند ہو۔بس کیا کہیں۔ شہر میں کہیں کسی سواری والی گاڑی میں یا خودکی سواری میں سفر کرنا گویا ایک مہم جوئی ہے۔اگر آپ گھر خیر سے پہنچ جائیں صحیح و سلامت سالم و محفوظ۔ پھر تو صدقہ اتاریں۔ اگر یہ خیر خیرات دے لیں تو خدا کا دیا ہو تو از سرِ نو کچھ دینے والا ہاتھ آگے بڑھائیں۔ کیونکہ یہ شہرِ خوباں شہرِ ناپُرسا ں بن چکا ہے۔ ”تو نے اپنے دامنِ دل میں امیدیں چن تو لیں۔ ہیں مگر اس شہرِ ناپرساں میں ہرجائی بہت“ (باصر نسیم)ہرجائیوں سے یہ شہر لبا لب بھرا ہوا ہے جو کسی راہگیر کسی چھوٹی موٹی گاڑی کی پروا تک نہیں کرتے۔راستے میں جو آئے اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ رکشہ کا سفر کیوں نہ ہو بس یو ں ہے جیسے چاندپر جانے کا خلائی سفر کہ کسی بھی وقت خلائی شٹل زمین پر آ رہے۔کہیں بھی حادثہ جنم لے۔کہیں اندر اندرکسی او رحادثے کی پرورش ہو رہی ہو۔ایک نا اعتباری او راعتبارکے درمیان زندگی ہے۔گویا رکشہ کا سفر ہی ایک ایڈونچر ہو جو کسی انگریزی فلم کے زیرو زیور سیون ہیرو نے انجام دینا ہو۔کہیں کوئی حادثہ آپ کے راستے کا کانٹا بن سکتا ہے۔شہر کی گلیوں تک میں وہ رش کاسماں ہے کہ توبہ توبہ کرنا پڑتی ہے۔اوپر سے ان دنوں کی جاتی ہوئی گرمی اپنا جوبن نئے سرے سے دکھلا رہی ہے۔سڑکیں گاڑیوں سے اٹی پڑی ہیں۔جس طرف جا نکلو اس طرف پشیمانی حاصل ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوگا۔ یہاں کیوں آئے اس راستے کاانتخاب کیوں کیا۔ سوچنا یہ ہے پھر کس راہ کو چنا جائے۔ہر شاہراہ میں حادثوں کے کانٹے بکھرے پڑے ہیں۔انسان کی تو کوئی حقیقت نہیں رہی۔ کسی کے ساتھ بھی کچھ معاملہ پیش آ سکتا ہے۔جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں جا کر دیکھیں۔ ایک آدھ گھنٹہ وہاں قیام کریں معلوم ہوگا گویا سارے شہر میں حادثات ہر لمحہ واقع ہو رہے ہیں۔ پورا شہر اوپر تلے ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ایک ابتری کی کیفیت ہے جو ایمرجنسی وارڈ ہی میں نظر آتی ہے۔یہ ایک ٹیسٹ ہے۔جیسے چاولوں کی پوری بوری کوئی نہیں دیکھتا۔ گودام کی ہزاروں بوریوں کا نمونہ صرف مٹھی بھر چاول ہوتے ہیں۔ یونہی ایمر جنسی میں کھڑے ہو کر معلوم ہوتا ہے کہ شہر کا حال بہت خراب ہے۔مگر راہِ فرار نہیں کہ بندہ شہر چھوڑ کر کہیں بھاگ نکلے۔کچھ بلکہ سب کچھ سمجھ سے باہر ہے۔۔سو یہ نظام یہ قانون کی کمزوری اپنے زوروں پر ہے۔مگر گھر سے نکل کرواپس گھر تک صحیح سلامت پہنچنا تو گویا صدیوں کا سفر ہے۔کیونکہ جو جو تماشے سرِ راہ دیکھنے کوملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ہم نے ستاروں سے آگے جو گذرنا ہے تو اس کیلئے یہ رفتا رکافی نہیں۔ اگرچہ برق رفتاری ہے۔بجلی کی سی تیزیاں ہیں۔ مگر ترقی کے ستاروں کی اور چلنا اس تیز رفتاری کے باوجود ممکن نہیں۔روشنی کی رفتار سے کیوں نہ ہو اب یہ سفر دشوار ہوا جاتا ہے۔ یہ تو عشق کے امتحان سے کامیاب ہو کر گزرنا ہے۔راستے میں وقت کا ایک بڑا سمندر حائل ہے جس میں سے ڈوب کر جانا ہے۔ترقی کا سفر شاید دوسری اقوام کیلئے آسان ہو۔مگر ہمارے لئے تو یہ سفر صدیوں کا سفر ہے۔سوچ میں تبدیلی بھی تو آئے۔یہ تبدیلی تو شاید دہائیاں گزر جائیں اور پھر آ بھی نہ پائے۔اگر آئے تو اس کے بعد کہیں جاکر کہ جب سوچ بدلے گی تو تبدیلی آنے کے وہ بھی امکانات پیدا ہوں گے۔وگرنہ تو ہم یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔پھر دوسری طرف یارانِ تیز گام منزل کو پہنچ چکے ہیں۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بھٹکے ہوئے راہی ہیں۔اپنی منزل کی تلاش میں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں بند کمرے میں جہاں اندھیروں کا راج ہے۔ایسے عالم میں تو سمتوں کاتعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔پہلے تو ہم نے اپنی سمت کا تعین کرنا ہے کہ ہم نے آخر جانا کہاں ہے۔پھر جب سمت مقرر ہو جائے تو راستے کیلئے سامان تیار کرنا ہے۔ مگر ہم نے جوسامان سمجھا وہ سوچ ہی غلط ہے۔اقبال کاشعر یہاں ساتھ دے گا کہ ”نگہ بلند سخن دلنواز جاں پُرسوز۔ یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے“