نیوزی لینڈ اور برطانیہ کی کرکٹ ٹیموں کی جانب سے پاکستان کے دورے منسوخ کرنے کی وجہ سے شائقین ِکرکٹ افسردہ ہیں تو وہیں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اس سے کرکٹ بورڈ کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا! وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے پیغام (ٹویٹ) میں کہا ہے کہ ”نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے دوروں کی منسوخی سے پاکستان ٹیلی ویژن کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ دونوں بورڈز کے خلاف قانونی کاروائی کیلئے وکلا سے مشورہ کریں گے۔“ ذہن نشین رہے کہ نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے دورے نہ ہونے سے ہونے والے مالی نقصان کا حجم قریب چالیس کروڑ روپے ہے چونکہ نیوزی لینڈ ٹیم کے خلاف ہونے والی سیریز کے تمام مالی معاہدے بک ہو چکے تھے لہٰذا اس مد میں یہ نقصان تقریباً بیس کروڑ روپے بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن کے درمیان 2020ء سے 2023ء تک کا معاہدہ ہے جو ریوینیو شیئر ماڈل کے تحت ان دونوں اداروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے ویڈیو پیغام میں واضح طور پر کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے اچانک چلے جانے سے جو مالی نقصان پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہوا ہے وہ ضرور پورا ہو گا‘ وہ یہ معاوضہ نیوزی لینڈ سے دلوا کر رہیں گے اور اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔ رمیز راجہ نے پریس کانفرنس (اکیس ستمبر) میں کہا کہ ”مالی نقصانات کے ازالے کیلئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) میں طریقہئ کار موجود ہے‘ جس کے مطابق یہ معاملہ ’آئی سی سی‘ کی ذیلی کمیٹی میں جائے گا جیسا کہ برطانیہ کرکٹ بورڈ نے مانچسٹر ٹیسٹ نہ کھیلنے پر بھارت کے خلاف آئی سی سی کی مذکورہ کمیٹی سے رجوع کیا تھا۔ رمیز راجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ وائٹ کے اس بیان سے سب نے یہ اندازہ لگا لیا ہوگا جس میں انہوں نے کہا کہ ایک حد تک وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہونے والے مالی نقصان کو دیکھیں گے کیونکہ اُنہیں بھی پتہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور یہ رقم اچھی خاصی ہوتی ہے۔ رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ جو پروٹوکول ہوگا وہ اس کی پیروی کریں گے اور اس کیلئے خوب لڑیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانونی چارہ جوئی کون کرے گا؟ پاکستان ٹیلی ویژن‘ پاکستان کرکٹ بورڈ یا خود حکومت؟ فی الحال کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ رمیز راجہ نے اگرچہ مالی نقصان کے ازالے کے لئے اپنے اپنے طور پر جو طریقہئ کار اختیار کرنے کی بات کی ہے اس میں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر کوئی کرکٹ بورڈ اپنی حکومت کی ہدایت پر کوئی سیریز کھیلنے سے انکار کرتا ہے تو پھر اس میں آئی سی سی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ انڈین کرکٹ بورڈ پاکستان کے ساتھ نہ کھیلنے کا ہمیشہ ایک ہی جواز پیش کرتا رہا ہے کہ اسے اپنی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں۔ کرکٹ بورڈ نے بھارت کے ساتھ آئی سی سی فیوچر ٹور پروگرام کے تحت ہونے والی چھ سیریز نہ ہونے پر ہونے والے چھ کروڑ تیس لاکھ ڈالرز کے مالی نقصان کے ازالے کیلئے آئی سی سی کی تنازعات سے متعلق کمیٹی سے رجوع کیا تھا لیکن پاکستان کو اس کیس میں شکست ہوئی تھی اور ایک بھی پیسہ ملنے کے بجائے وکیلوں کی فیس کی مد میں بیس لاکھ ڈالر ادا کرنے پڑے تھے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ مالی نقصان کے ازالے کے لئے یقینی طور پر نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ پر بھرپور دباؤ ڈال رہا ہے اور اس ضمن میں رمیز راجہ نے پہلے ہی دن ٹویٹ کی تھی کہ نیوزی لینڈ اب ہمیں آئی سی سی میں سنے گا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ اس مسئلے کا غیر جذباتی حل بھی چاہتا ہے۔ اسے یہ معلوم ہے کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو آئندہ سال بھی پاکستان کا دورہ کرنا ہے لہٰذا وہ یہی چاہے گا کہ نیوزی لینڈ ٹیم اگلے سال پاکستان آئے اور اس منسوخ شدہ دورے کے میچز کو بھی ایڈجسٹ کیا جائے تاہم پاکستان برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی کسی بات کا اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں اور یہ بات برطانیہ اور ویلز کے کرکٹ بورڈز بھی بخوبی جانتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال کا معاملہ ہے تو پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں سیاح دنیا بھر سے تسلی اور اطمینان کے ساتھ آرہے ہیں اور سیاحت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں خود نیوزی لینڈ اور برطانیہ میں دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں اور حال ہی میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی نیوزی لینڈ خواتین کرکٹ ٹیم کو دھمکی بھی ملی ہے اب اگر اس طرح کی باتیں کسی بھی دورے کی منسوخی کے لئے سبب بن سکتی ہے تو پھر نیوزی لینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کا دورہ بھی فی الفور منسوخ کرنا چاہئے تاہم ظاہر ہے کہ یہ دونوں ممالک کی باہمی مشاورت سے سب کچھ ہوا ہے اور ا س کی وجوہات سکیورٹی کا معاملہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی گروپ بندی ہے۔