مسائل کا انبار

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بیان کہ پاکستان ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر رہا بھارت کے منہ پر زناٹے دار طمانچے کے مترادف ہے کہ جو مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے طالبان نے افغان کابینہ میں تاجک ازبک اور ہزارہ کے نمائندے شامل کر کے ایک نہایت ہی صائب قدم اٹھایا ہے امید ہے کہ وہ افغان کابینہ میں خواتین کو بھی مناسب نمائندگی دیں گے اور اپنے ملک کے اندر لڑکیوں کی تعلیم کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان بڑا دانشمندانہ ہے کہ طالبان کے بارے میں دنیا یکدم کسی نتیجے پر نہ پہنچے ان کو وقت درکار ہے کہ وہ اپنے ملک کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں ابھی تو اقتدار میں آ ئے ان کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ روم ایک دن میں تعمیر نہیں ہوا تھا۔آج کل غیر ملکی سرکاری دوروں کے دوران ہمارے سینئر بیوروکریٹس اور حکمرانوں کو جو قیمتی تحفے تحائف ملتے ہیں ان کے بارے میں میڈیا میں ایک مرتبہ پھر بحث چل نکلی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جب بھی ہمارے سینئر سرکاری افسر اور حکمران غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو میزبان ممالک کی طرف سے انہیں نہایت ہی قیمتیں تحفوں سے نوازا جاتا ہے اب اس قسم کے تحفوں کے بارے میں رولز و ریگولیشنز یہ ہیں کہ وطن واپسی پر ان کو ڈکلیئر کیا جائے اور فورسٹیٹ بنک کے توشہ خانے میں جمع کر دیا جائے۔ بلا شبہ ان کی ملکیت پر پہلا حق اس افسر اور حکمران کا ہے کہ جسے یہ ملا ہے پر اس کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے جو ان کی مارکیٹ ویلیو متعین کرتی ہے اور جس افسر یا حکمران کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے اسے پیشکش کی جاتی ہے کہ اگر وہ اسے لینا چاہتا ہے تو اس کی مارکیٹ ویلیو کی چوتھائی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا کر اسے حاصل کر لے پر اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس صورت میں قانون یہ کہتا ہے کہ پھر اس کا نیلام عام کیا جائے اور اس سے حاصل کی گئی رقم کو  سرکاری خزانے میں جمع کیا جائے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے‘حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے تمام سیاسی رہنما بھلے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں مہنگائی کا رونا تو سب ہی روتے ہیں پر کوئی بھی وہ رستہ نہیں بتاتا کہ جس پر چل کر مہنگائی کی عفریت سے چھٹکارا پایا جائے ہمیں یہاں ایک مقولہ یاد آ گیاہے اور وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک برطانوی فلسفی نے لکھا ہے کہ ہر انگریز برطانیہ کے ناقابل اعتبار اور خراب موسم کی ہر وقت شکایت کرتا ہے پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اسے کیسے ٹھیک کیا جائے ہم اپنے ملک کی معیشت کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں اگر ہم اسی طرح کڑی شرائط پر قرضہ حاصل کرکے اپنے اوپر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے رہیں گے کی ماہرین معیشت کا یہ خیال ہے کہ اگر ہم بعض اشیائے تعیش کی اس ملک میں امپورٹ بند کر دیں تو اس سے بھی ایک اچھی خاصی رقم بچای جا سکتی ہے کہ جوہمارے بجٹ کو بیلنس کرنے میں بڑی مدد دے سکتی ہے ہم ہر سال اربوں روپے کا زر مبادلہ سامان تعیش پر خرچ کر کے اس کو اس غریب ملک میں امپورٹ کرتے ہیں کہ جن کی ہم اگر پانچ سال کیلئے امپورٹ بند بھی کردیں تو اس سے عام آدمی کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔دوسری ہماری کمزوری یہ ہے کہ ابھی تک اس ملک کی معیشت کو دستاویزی نہیں بنا سکے اور جب تک اس ملک کی معیشت کو دستاویزی نہیں بنایا جائے گا اس ملک میں ٹیکسیشن کا منصفانہ نظام رائج ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور جب تک کہ منصفانہ ٹیکسیشن کا سسٹم نافذ نہ ہوگا معاشی خود کفالت کا حصول ممکن نہیں۔