پاکستان مخالف قوتوں کو افغانستان میں قیام امن ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور وہ نہ ہی افغان امن کی کوششیں اور اِس کا کریڈٹ پاکستان کے نام کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو ”غیر محفوظ ملک“ ہونے کا تاثر قائم کیا گیا جس کی وجہ سے مہمان کرکٹ ٹیم (نیوزی لینڈ) نے اچانک واپسی اور برطانیہ کرکٹ ٹیم نے اپنا مجوزہ دورہئ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنز نے خود اس امر کی گواہی دی کہ برطانوی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں تھا۔ ان کے بقول وہ خود پاکستان میں آزادانہ گھومتے ہیں اور اگر سکیورٹی خدشات ہوتے تو وہ سکیورٹی ایڈوائزری جاری کرتے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کے کرکٹروں نے بھی دورہ پاکستان کی منسوخی پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ سابق عالمی کرکٹرز اس وقت بھی پاکستان آ کر کھیلنے کا عندیہ دے رہے ہیں‘ جس سے پاکستان کے غیر محفوظ ہونے کے گمراہ کن خیالات کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ پاکستان کسی بھی دوسرے ملک کی طرح امن کا گہوارہ ہے اور اسی تناظر میں پاک فوج کے سربراہ نے بھی پیغام دیا ہے کہ ”پاکستان سیاحت‘ کھیل اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے مکمل طور پر محفوظ ہے۔“ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین کے بقول ”کرکٹ سیریز کی منسوخی (درحقیقت) ہائیبرڈ وار کا حصہ ہے۔ یہ سیریز منسوخ ہونے سے صرف پی ٹی وی کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا‘ جب ہم ”ایبسولیوٹلی ناٹ“ کہیں گے تو اس کی قیمت تو ادا کرنا ہو گی۔“ رواں ہفتے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے اجلاس میں ہونے والے مختلف فیصلوں سے آگاہ کیا اور نیوزی لینڈ اور برطانوی کرکٹ ٹیموں کے دورہئ پاکستان کی منسوخی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ واضح انکاری پالیسی اپنائیں گے تو آپ کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے وزیر اعظم کے اُس انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے افغانستان میں کاروائی کے لئے امریکہ کو اڈے دینے سے متعلق مطالبے کو ”ایبسولیوٹلی ناٹ“ کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ پاکستان نے خطے میں قیام امن اور بالخصوص اقوام عالم کو دہشت گردی کے ناسور سے خلاصی دلانے کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک سے بھی زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں اور عساکر پاکستان آج بھی آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم پر کاربند ہیں اور تلخ حقیقت یہی ہے کہ سانحہئ نائین الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے نیٹو ممالک کی افواج کو ساتھ ملا کر افغان دھرتی پر شروع کی گئی اپنے مفادات کی جنگ کے تناظر میں ہی یہاں دہشت گردی کے دروازے کھلے تھے۔ امریکہ نے اس جنگ میں افغان دھرتی کو اجاڑ کر اس کا تورا بورا بنایا اور انسانی خون سے رنگین کیا جبکہ اس نے اس جنگ میں نیٹو افواج کو لاجسٹک معاونت فراہم کرنے والے اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو بھی نہ بخشا اور اس سے”Do More“ کے تقاضے کرتے ہوئے پاکستان کے اندر خود بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ امریکہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو خطرے میں ڈالتے ہوئے بھارت کی سرپرستی کر رہا ہے۔ افغانستان پر امریکہ اور اِس کیاتحادی ممالک کے حملوں کے نتیجے میں پاکستان کے اندر خودکش حملوں (دہشت گرد کاروائیوں) کا سلسلہ شروع ہوا‘ جس میں بطور خاص سکیورٹی فورسز کے اراکین‘ اِن کے دفاتر اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا جانے لگا جبکہ پاکستان کے کئی سیاسی قائدین کے علاؤہ قریب ستر ہزار بے گناہ شہریوں کی شہادتیں بھی ہوئیں۔ نیٹو ممالک نے افغان دھرتی پر مسلسل بارہ سال تک بھاری نقصانات اٹھانے کے بعد بالآخر افغانستان سے واپسی کا فیصلہ کیا تاہم امریکہ نے اپنی افواج کی ایک مخصوص تعداد افغانستان میں موجود رکھی جس کی یہاں موجودگی کے مقاصد درحقیقت پاکستان چین بے مثال دوستی میں نقب لگانے اور خطے میں چین کا اثر و رسوخ توڑنے کے تھے۔ اگر پاکستان امریکہ کا مذکورہ تقاضا پورا کر دیتا تو امریکی افواج آج بھی افغان دھرتی پر بمباری کر رہی ہوتی اور وہاں عام شہریوں کا خونِ ناحق بہا رہا ہوتا تاہم پاکستان کے انکار کے بعد امریکہ افغانستان سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوا چنانچہ افغان جنگ میں پاکستان کے اس مؤثر کردار نے ہی امریکہ کے افغانستان سے انخلأ‘ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی اور افغانستان کے امن و استحکام کے ذریعے پورے خطے کے امن و استحکام کی راہ ہموار کی۔ عالمی کرکٹ کی واپسی جلد یا بدیر ہو جائے گی لیکن پاکستان کو افغان قیام امن کے سلسلے میں اپنے مؤقف اور کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ بہت سے ظاہری امراض (جرائم بشمول دہشت گردی) کا اِسی میں ہی پائیدار اور دائمی علاج پوشیدہ ہے۔