علامہ اقبال اور افغانستان

مفکر پاکستان اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے دل میں امت مسلمہ کی زبوں حالی کا جودرد پوشیدہ تھا اس کا واضح عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔انہوں نے اپنی پرسوز شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کوجھنجوڑ کر جگانے کے جوجتن کئے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ عالم اسلام کے اتحاد اور بالادستی اور اسلام کی نشاط ثانیہ کیلئے کتنے فکرمند اور پراُمید تھے۔مصور پاکستان کی حیثیت سے ان کی ایک ایک بات حرف آخر ثابت ہو رہی ہے۔انہوں نے جن نامساعد اور مایو س کن حالات میں نظریہ پاکستان پیش کیاتھااس کی نظیر اور کوئی پیش نہیں کرسکتا ان کے فرمودات آج بھی ہمارے لئے بحیثیت ایک قوم مشعل راہ ہیں۔اسی طرح ہندوستان کے ایک اہم اور قریبی پڑوسی ملک افغانستان کے بارے میں علامہ اقبال نے جوپیشگوئی کی تھی وہ آج سو سال بعد بھی سو فیصد درست ثابت ہو رہی ہے۔اگر اس خطے اور خاص کر افغانستان کے حالات پر نگاہ دوڑائی جائے تو علامہ اقبال کے افغانستان سے متعلق کہے ہوئے یہ تاریخی اشعار....آسیا یک پیکر آب و گل است....ملت افغان در آن پیکر دل است.... از فساد او فساد آسیا....ازکشاد اوکشاد آسیا....اگر ایک طرف افغانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں تو دوسری جانب اقبال کی یہ افغان شناسی اس خطے حتیٰ کہ پوری دنیا کی راہنمائی کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔ علامہ اقبال ان اشعار میں فرماتے ہیں کہ براعظم ایشیا ء ایک جسم کے مانندہے جس میں افغانستان کی مثال دل کی طرح ہے۔ اس دل یعنی افغانستان کا فسادبمعنی بدامنی وافراتفری سے دوچار ہونا ایشیا کے فساداور بے چینی کا سبب ہے اور اس کی کشادگی یعنی یہاں امن وسکون پورے بر اعظم ایشیا کی بھلائی وترقی کاباعث ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی فارسی اور اردو شاعری کے ذریعے عالم اسلام کے چاک گریبان اور اس کے رستے ہوئے زخموں کا جو کافی و شافی علاج تجویز فرمایاہے اس کی طرف کوئی بھی دھیان دینے کیلئے تیار نہیں ہے جس سے یہ ہمارے یہ رستے زخم مندمل ہونے کی بجائے دن بدن مذیدپیچیدہ ہو کر بگڑتے جا رہے ہیں۔ضروری ہے کہ ہم مغرب سے اپنا رشتہ توڑ کر ایک بار پھر حکیم الامت سے رابطہ جوڑنے پر آمادہ ہو جائیں۔حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم اگراپنی حقیقی منزل پرپہنچنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں پھر سے علامہ اقبال کے تصور ملت میں گم ہوناہوگا۔ اقبال کی تعلیمات کا ماخذ چونکہ قرآن وسنت ہیں اسلئے وہ جس تصور ملت کی بات کرتے ہیں دراصل یہ وہی تصور ہے جس کا ذکر ہمیں قرآن وحدیث میں ملتا ہے‘ یعنی کہ سارے مسلمان ایک جسم کی مانندہیں لہٰذاجب جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہوگی توسارا جسم تکلیف محسوس کرے گا۔ علامہ اقبال نہ صرف تاریخ جہاں اور تاریخ اسلامی کا گہرا شعور رکھتے تھے بلکہ تاریخ ہند اسلامی کے فہم و ادراک میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی اس حیثیت سے متاثر ہوکر ہی افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے آپ کو افغانستان کا نظام تعلیم وضع کرنے اور اس ضمن میں راہنمائی فراہم کرنے کی غرض سے دورہ افغانستان کی دعوت دی تھی جس پر آپ نے 1933 میں علامہ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا۔اس دورے میں آپ نے کابل میں سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابر،غزنی میں محمود غزنوی اور قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے مزار پر حاضری دینے کے موقع پر اپنی شہرہ آفاق فارسی مثنوی بعنوان مسافر تخلیق کی تھی جس کو بعد میں ”پس چہ باید کرداے اقوام شرق“کے ساتھ ملا کر 1934میں ایک ساتھ شائع کردیا گیا تھا۔لہٰذا اگر آج بھی بنظر غائر دیکھاجائے تو پاکستان ا ور افغانستان جوتاریخی‘ جغرافیائی‘ اقتصادی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ غرض ہر لحاظ سے یک جان دو قالب ہیں کے درمیان گہرے دوستانہ وبرادرانہ تعلقات استوار ہونے کے وسیع امکانات موجو دہیں۔