مجھے رات کو ایک گمنام آدمی کا فون آیا۔ اس نے جو پیغام دیا اس میں ایک خوفناک قسم کا دھڑکا تھا۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں دل ہار بیٹھا۔ پاس ہی بھتیجے اور بھائی اور بہنیں بیٹھی تھیں۔ وہ حواس باختہ ہونے لگے۔پوچھنے لگے فون پر کون تھا کیا کہتا تھا کیا ہوا بتلاتے کیوں نہیں۔میں نے بھتیجے سے صرف اتنا کہا بائیک نکالو ہم ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں جائیں گے۔ کیونکہ جس نے فون کیا اس نے کہا میں اس کو ایمرجنسی وارڈ میں لے جارہاہوں آپ جلدی پہنچیں۔ آپ کے گھر کی خاتون رکشہ میں آرہی تھی۔ اشرف روڈ پرگٹر کے اوپر کھڈے میں رکشے کا اگلا ٹائر گرا اور ساتھ ہی سواری رکشہ سے باہر جا پڑی۔ اس کے سر پرچوٹ لگی ہے۔خیر ہے سب کچھ ٹھیک ہے مگر آپ جلدی پہنچیں۔ اس کا یہ کہنا کہ جلدی پہنچیں اور مریضہ کی آواز کا فون پر نہ آنا شکوک و شبہات کو جنم دے رہاتھا۔ ہم نے ادھر اُدھر نہیں دیکھا اور دوڑ پڑے۔ساتھ ہی میری بھابھیاں اور بہنیں اور بیٹیاں اور بیٹے سمجھو پورا خاندان ایمرجنسی وارڈمیں پہنچ گیا۔ وہ گلبہار ہی میں آ رہی تھی۔ جہاں ایک تقریب تھی۔ جب ہم ایمرجنسی کمرے کی سرخ پٹی پر چلتے ہوئے سیدھا اس کے بیڈ پر پہنچے تو میری چیخیں نکل گئیں۔ اس کا سرماتھے کے اوپر سے کھلا ہوا تھا۔ بے حس و حرکت پڑی تھی۔ جی ہاں وہ میری بیگم صاحبہ تھیں۔مگر جو بندہ اس کو مشکلوں سے یہاں لایاتھا وہ بھی قریب تھا۔ کہتا تھا بچ گئی ہے۔خدا کا شکر ادا کریں۔ مگر میرے دل میں کچھ اور خطرناک خیالات چکرلگا رہے تھے۔ کیونکہ سر کی چوٹ تھی۔وہ بیچارا حادثہ کی جگہ کے پاس بائیک پر گزر رہا تھا۔ جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں۔ مگر اس نے ہمت کا مظاہرہ کیااور خاتون کو رکشہ میں سوار کر کے یہاں تک لایا۔اس کا کہنا تھا کہ جب حادثہ ہوا تو سب لوگ وہاں جمع ہو کر صرف تماشا دیکھ رہے تھے۔ خاتون کے سر سے خون کافوارہ پھوٹ نکلا تھا۔اس کے سارے کپڑے سر سے کر پاؤں تک سرخ ہو چکے تھے۔ خون کے دھبے اس کے جسم اور چہرے پر عیاں تھے۔ مگر کوئی نزدیک نہیں آ رہاتھا۔ معلوم نہیں کس بات سے ڈر رہے تھے۔ الٹا موویاں بن رہی تھیں۔ اس نیک انسان نے خاتونِ خانہ کو ماتھے پر کس کے چادر باندھ دی تھی۔ چونکہ گھر کی خاتون تھی اور بچوں نے کبھی اس کو اس حال میں نہ دیکھا تھا کہ سب جسم خون کے دھبوں سے داغ داغ تھا۔ اس لئے سب چیخنے چلانے لگے تھے۔یہ منظر ہی ان کو رُلا دینے کیلئے کافی تھا۔ مگر بعد میں اس کی حالت سنبھل گئی تھی۔ اب اس کو ٹانکے لگانے کیلئے لے جانا تھا۔ خون بہنا رک چکا تھا۔جب ٹانکے لگائے جا رہے تھے تو میں اس کے بیڈ کے پاس کھڑا تھا۔ سر کی ہڈی نظر آ رہی تھی۔ اگر چوٹ ہڈی کو ٹچ کرتی تو پھر سارا منظر بدل گیا ہوتا۔ مگر خدا کا شکر ایسا نہ ہوا۔ ٹانکے لگاتے وقت میں نے میڈیکل والے لڑکے سے کہا اس عورت نے پینتالیس مرتبہ خون کا عطیہ دیا ہوا ہے۔اس لئے جو خون دینے کاعادی ہو وہ خون بہنے سے نہیں گھبراتا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو صرف زیادہ خون بہہ جانے کی گھبراہٹ سے جانے کب کا بازی ہار چکاہوتا۔ چونکہ ہر انسان میں اس کی ضرورت سے زیادہ خون موجود ہوتا ہے۔اس لئے ایسے موقع پر خون بہہ جانے سے نہیں گھبرانا چاہئے۔ کیونکہ نفسیاتی طور پر خوف کی وجہ سے بھی آدمی کو جان کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔جب بندہ ایک بوتل خون عطیہ کرتا ہے تو اس کامطلب یہ کہ اس کے جسم سے کافی خون نکالا گیا مگر اس کو کچھ نہ ہوا۔ سو اب اس موقع پر پریشانی کی کیا ضرورت ہے۔ میں جب ایک مرتبہ سی ایم ایچ راوالپنڈی کے بلڈ بینک میں خون دے رہاتھا تو وہاں کمرے میں ایک چارٹ پر خون دینے کے فوائد لکھے تھے۔ جو مجھے پہلے سے معلوم تھے۔ مگر ایک نئی بات جو میں نے وہاں پڑھی یہ تھی کہ خون عطیہ کرنے والا خون بہنے سے نہیں گھبراتا۔ یہ بات برسوں بیت گئے مجھے آج تک یاد ہے۔ پھر یہ بات حقیقت میں بھی ایسی ہی ہے۔میرے ساتھ جو حادثات ہوئے مجھے خون بہنے کے وقت کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ٹانکے لگانے والا کہہ رہاتھا کہ آفرین ہے اس خاتون پر۔اگر اس کو خون کی ضرورت ہوئی تو میں خوداس کو ابھی خون دوں گا۔ اس نے مزید کہا ایک مرتبہ دو فریقین کے درمیان میں جرگے کے دوران فائرنگ ہوگئی۔ تیرہ آدمی جان سے گئے۔جو مریض یہاں ایل آر ایچ میں لائے گئے ان میں چار آدمی تو خون دستیاب نہ ہونے کے کارن انتقال کر گئے۔ حالانکہ ہم نے لاؤڈ سپیکر میں اعلانات کئے کہ چاربر لب موت مریضوں کو خون کی ایمرجنسی میں ضرورت ہے۔مگر کوئی نہ آیا۔اس کی باتیں میرے دل کولگ گئیں۔ میں نے سوچا اس حوالے سے عوامی مہم کے ذریعے لوگ زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوں اور خون عطیہ کرنے کے متعلق زیادہ سے زیادہ بتلانا چاہئے۔