توجہ سے محروم خصوصی اَفراد؟

مختلف جسمانی معذوری رکھنے والے افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ ”افراد باہم معذور‘‘کے آئینی و اخلاقی حقوق ادا کئے جائیں۔ پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ (تیئس ستمبر) خصوصی افراد کی نمائندہ تنظیم ”خیبرپختونخوا فیڈریشن آف ڈیف اینڈ ڈمبز‘‘کی جانب سے کیا گیا جن کی قیادت حامد اللہ خان چمکنی کر رہے تھے۔ مظاہرین نے اپنے مطالبات کے ذکر پر مشتمل پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر تحریر اور پیش کردہ مطالبات کا بنیادی نکتہ فیصلہ سازوں کی توجہ آبادی کے اُس بڑے حصے کی ضروریات بارے متوجہ کرنا ہے‘ جنہیں تجاہل عارفانہ اختیار کرتے ہوئے فراموش کر دیا گیا ہے۔ مظاہرین نے اس  جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ خصوصی افراد کی فلاح و بہبود‘ تعلیم  و تربیت کے لئے مختص مالی وسائل اور مختص ملازمتی مواقعوں سے خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو رہا۔ مطالبات میں شامل ہے کہ 1: سرکاری اداروں میں معذور افراد کے لئے مختص نشستوں پر معذور افراد ہی کی بھرتیاں کی جائیں۔ 2: خصوصی تعلیم کے اداروں میں تربیت یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ تعینات کئے جائیں‘ جنہیں خصوصی اداروں میں تدریس کا تجربہ ہونا چاہئے اور اِس مقصد کے لئے اِن اساتذہ کے لئے الگ سے تربیت کا انتظام و نصاب ہونا چاہئے۔ 3: بصارت سے محروم معذور افراد کے لئے تعلیمی نصاب اور دیگر کتب کو برائل پرنٹنگ کے ذریعے شائع کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ برائل طریقہئ اشاعت پیرس (فرانس) سے تعلق رکھنے والے ’لوئیس برائل‘ نامی شخص نے 1824ء میں اُس وقت ایجاد کیا تھا‘ جب وہ ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ چلڈرن‘ پیرس میں زیرتعلیم تھا۔ برائل اشاعت ابھرے ہوئے نکتوں پر مشتمل ہوتی ہے اُور اِن نکتوں پر انگلیاں پھیر کر نابینا بچے اُور بڑے کسی بھی صفحے پر درج تحریر کو باآسانی پڑھ سکتے ہیں جبکہ کمپیوٹروں کی ایجاد سے برائل طریقہئ تدریس نئے دور میں داخل ہو گیا ہے جن کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی سکین شدہ صفحے یا کتاب کو کمپیوٹر پڑھ کر سناتا ہے اُور نابینا افراد ہیڈفونز کے ذریعے کسی صفحے یا پوری کتاب یا اُس کے کچھ حصے کو ایک بار یا بار بار پڑھ سکتے ہیں۔ کمپیوٹروں کے بعد انٹرنیٹ نے سماعت سے محروم افراد کے لئے تعلیم مزید آسان کر دی ہے اُور اب وہ کسی بھی زبان کی کتاب یا تحریر کو اپنی مادری زبان میں سن سکتے ہیں اُور دنیا میں ایسی صوتی کتب (audio books) بڑی تعداد میں شائع ہوتی ہیں جن سے صرف نابینا ہی نہیں بلکہ سماعت رکھنے والے افراد بھی استفادہ کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کو الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ سمجھنے میں مدد ملتی ہے جبکہ وہ اپنی سہولت کے مطابق کتاب کے کسی منتخب پسندیدہ حصے کو بار بار سن بھی سکتے ہیں۔ صوتی کتب کسی بھی سمارٹ فون کے ذریعے سنی جا سکتی ہیں لیکن اِن کی مقبولیت اور بڑھتے ہوئے استعمال کو دیکھتے ہوئے خصوصی آلہ بھی ایجاد کیا گیا ہے جسے ’کینڈل‘ کہا جاتا ہے اور اِسے امریکی کمپنی ایمزازون  نے 2007ء ایجاد کیا تھا اُور اِن 13 برس کے سفر میں کینڈل صوتی کتب کی 11 اقسام (جنریشنز) متعارف کروائی جا چکی ہیں اور یہ مصنوعی ذہانت سے لیس ہونے کے علاوہ کسی قاری کے پڑھنے کی عادت‘ مطالعے کے ذوق‘ رفتار‘ موضوعات کی پسند و ناپسند اور انتخاب کے مطابق بھی تبدیلیاں تجویز کرتی ہے۔ پاکستان میں معذور افراد کی تعلیم و تربیت کے مختص مالی وسائل کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے مذکورہ دستیاب جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ ممکن نہیں ہو رہا۔سال 2017ء میں کئے گئے ایک مطالعے کے نتائج 2019ء میں جاری کئے گئے جن سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی قریب 21 کروڑ آبادی میں 11 لاکھ 20 ہزار افراد بصارت سے محروم ہیں لیکن یہ اعدادوشمار قابل بھروسہ نہیں کیونکہ پاکستان میں ہوئی 5ویں مردم و خانہ شماری 1998ء کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ ملک کی کل آبادی کا 2.38فیصد معذور (خصوصی) افراد پر مشتمل ہے جبکہ چھٹی مردم و خانہ شماری 2017ء میں آبادی میں اضافہ لیکن معذور افراد کی تعداد کم بتائی گئی اور کہا گیا کہ ملک میں معذور افراد کی تعداد آبادی کے کل تناسب کے لحاظ سے 0.48 فیصد سے بھی کم ہے! ظاہر سی بات ہے کہ جب ہمارے فیصلہ سازوں کے سامنے آبادی کے درست اعدادوشمار ہی موجود نہیں تو وہ معذور (خصوصی) افراد کے مسائل و مشکلات کے بارے میں کس طرح حقیقی فیصلہ سازی کر سکیں گے!؟ جہاں معذور افراد کی تعداد آبادی کے ایک فیصد کے بھی نصف سے کم ہونے پر یقین کیا جا رہا ہو۔