امریکہ، اس کے اتحادی ممالک اور مغربی میڈیا افغان طالبان پر ان کی حقوقِ نسواں بارے پالیسی اور طرزعمل کی وجہ سے تنقید کررہے ہیں۔ کیا اس کا جواز بنتا ہے اور کیا دنیا اور طالبان کے درمیان حقوقِ نسواں پر مفاہمت ممکن ہے؟امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی تشویش میں مبتلا ہیں کہ گذشتہ بیس سال کے دوران خواتین کے حقوق کے ضمن میں ہونے والی پیش رفت ضائع ہوجائے گی۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد مغربی ممالک اور مغربی میڈیا دن رات افغانستان میں خواتین کے حقوق کے راگ الاپ رہا ہے کہ جیسے وہ خواتین کے مستقبل پر بڑے فکرمند ہیں۔ مگر فروری 2020 ء کے امریکہ طالبان معاہدے میں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کا ذکر ہی نہیں ہے جبکہ مغربی میڈیا بھی اس پر خاموش رہا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے فیصلے قومی مفاد کے تحت لیتے ہیں مگر نام انسانی حقوق اور آزادیوں کا لیتے ہیں۔طالبان کہتے آئے ہیں ان کی حکومت میں خواتین کو شریعت کے تحت سارے حقوق ملیں گے۔ مردوں سے علیحدہ اور پردے کے ساتھ خواتین کے پیشے اور تعلیم کا حق وہ تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں خواتین اسلامی روایات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں۔ چہرہ چھپانا یا نہ چھپانا خواتین کی مرضی پر منحصر ہے۔طالبان نے خواتین کی قومی عمل میں شمولیت کا وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک ان کی حکومت میں کوئی عورت شامل نہیں کی گئی ہے۔ تاہم امکان ہے کہ خواتین کو بھی جلد یا بدیر کابینہ میں شامل کرلیا جائے گا۔پچھلے ہفتے طالبان حکومت نے وزارتِ بہبودِ خواتین کا نام بدل کر وزارت اخلاقیات رکھ دیا۔ طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ صرف نام کی وزارت تھی۔ اس کی ملازم خواتین کو دیگر سرکاری اداروں میں کھپایا جائے گا۔ ہم خواتین کے حقوق کے مطابق جدید ادارہ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ چند اداروں میں خواتین نے کام شروع کردیا ہے، دوسروں میں جلد کام شروع کر دیں گی۔ ہمیں صحت، اعلیٰ تعلیم، سکول، پولیس اور عدلیہ کے شعبوں میں خواتین کی فوری ضرورت ہے۔ طالبان حکومت نے یونیورسٹیوں کی کلاسوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ رہنے کا کہا ہے جبکہ چھٹی سے بارھویں جماعت تک لڑکوں کے تعلیمی ادارے کھول دئیے ہیں مگر لڑکیوں کے نہیں۔ تاہم حکومت کے بقول یہ ایک عارضی فیصلہ ہے اور جلد ہی بتادیا جائے گا کہ لڑکیاں کب سے سکول جا سکیں گی۔ اقوامِ متحدہ نے طالبان سے بلاتاخیر لڑکیوں کے سیکنڈری سکول کھولنے کا تقاضا کیا ہے۔ یونیسکو کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ختم اور خواتین اساتذہ کو کام پر لوٹنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ یاد رہے طالبان کی پہلی حکومت میں لڑکیوں کے سکول اور کام پر جانے کی پابندی تھی۔ مردوں کے لئے داڑھی اور خواتین کے لئے برقع لازمی قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے ٹی وی، موسیقی اور سنیما پر بھی پابندی لگادی تھی۔مگر موجودہ طالبان حکومت کے اب تک کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ خواتین بارے اپنی پچھلی حکومت والی سخت گیر پالیسی سے اجتناب کریں گے۔افغان معاشرہ طالبان کے علاوہ بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے قدامت پسند ہے۔ کابل میں اونچے طبقے کی تعلیم یافتہ خواتین مغربی لباس و طرز زندگی کی دلدادہ ہوسکتی ہیں لیکن کابل سے باہر کی خواتین قدامت پسند ہیں۔ وہ مٹھی بھر خواتین، جن کی روزی روٹی انسانی حقوق پر جلسے جلوس سے وابستہ ہے اور طالبان کے آنے سے ان کے این جی اوز کے کاروبار ماند پڑگئے ہیں، ظاہر ہے طالبان کی مخالفت اور ناکامی کے لئے کوششیں ہی کریں گی۔ کابل اور دیگر شہروں میں طالبان کے خلاف ان خواتین نے مظاہرے کئے ہیں تو طالبان کی حمایت میں بھی باپردہ خواتین کے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔لگتا یہ ہے افغان طالبان کی حکومت خواتین تعلیمی اداروں کے لئے الگ نصاب تیار کرے گی اور پھر علیحدہ اداروں میں خواتین اساتذہ ہی انہیں تعلیم فراہم کریں گی۔ یہ کام مشقت طلب اور طویل مدت ہے اس لئے انہیں مہلت دی جانی چاہئے۔ ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور دنیا کو افغانستان کی ثقافت اور قوانین کا احترام کرنا چاہئے۔ طالبان کے ساتھ رابطہ، اچھے تعلقات اور تعاون انہیں مزید پیش رفت پر آمادہ کر سکتا ہے۔ مغربی ممالک اور مغربی میڈیا طالبان پر صرف اس وجہ سے تنقید کررہے ہیں کہ یہ ان کی پسند اور سمجھ کے مطابق خواتین پالیسی نہیں بناتے۔ مغربی ممالک بھول جاتے ہیں ان کے ہاں خواتین کو بالغ رائے دہی دینے میں صدیاں لگیں۔ امریکہ 1776 ء میں قائم ہوا مگر 1920 ء میں وہاں وفاقی سطح پر عورتوں کو ووٹ کا حق ملا۔ اسی طرح برطانیہ نے 1928ء، سپین نے 1933، فرانس نے 1944، اٹلی نے 1946، یونان نے 1952ء میں اور سوئٹزرلینڈ نے 1971 ء میں وفاقی جبکہ 1990 ء میں مقامی سطح پر خواتین کو ووٹ کا حق دیا۔افغانستان میں خواتین کی حالت طالبان کی آمد سے قبل بھی بری ہی تھی۔ طالبان کی آمد سے خواتین کی صورتحال خراب ہونے کا تاثر غلط ہے۔ یہ مسائل ان 20 سال میں بھی موجود رہے جب امریکہ اور اس کے اتحادی یہاں موجود تھے۔ یہاں خواتین آبادی کا اڑتالیس فیصد ہیں مگر جان و مال کے تحفظ اور ملازمتوں، خواندگی اور انصاف کی فراہمی کی شرح میں یہ مردوں سے بہت پیچھے ہیں۔ حقوق نسواں کے تحفظ کے حوالے سے افغانستان عرصے سے دنیا میں بہت پیچھے اور نیچے رہا ہے‘امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یہاں بیس سال گزارنے کے باوجود افغانستان کی دوتہائی لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں اس صورتحال کو تبدیل کرنا ایک طویل مدتی عمل ہے جس میں ان کی تعلیم، صحت، روزگار، معاشی خوشحالی اور نمائندگی کو توجہ دینا ہوگی۔