وہ پوچھتے ہیں کہ تم اپنے کالموں کے لئے عنوانات کہاں سے لاتے ہو۔ مجھ سے تو کچھ جواب بن نہ پایا۔اتنی عرض گذاری کہ ”ہر چیز عنوان ہے اور کسی صاحبِ کمال کی منتظر ہے“۔ہم تو صاحبِ کمال نہ ہوئے۔بلکہ کسی ہنس مکھ کا شعر یاد آیا ”بہتر ہے ہم سے دوررہیں صاحبِ کمال۔ہم صاحبِ خطا ہمیں تنگ نہ کیجئے“۔عنوان ہیں کہ ان میں کمی نہ آئی مگر ان کی تعداد میں خوب اضافہ ہوا بلکہ زیادتی ہوئی۔ پھر زیادتی ابھی تک ہو رہی ہے۔مستقبل قریب و دور میں لگتا نہیں کہ ہمارے ہاں کے عنوانات میں کمی آئے۔عنوانات کے بجائے مسائل کہہ دیں۔کالم نگار ہو یا نثر نگار یا پھر شاعرِ زرنگار ہو سب کاانٹینا معاشرے میں لہرا رہا ہوتا ہے۔یہ سب لوگ کاپی کرتے ہیں‘یہ اپنے معاشرے کی نقل کورے کاغذ پر اتارتے ہیں۔جو بھی لکھتا ہے ہر چند قلم اس کا ہوتا ہے جس کو کبھی کبھی وہ خیالات کے چلے میں جڑ کے تیر کی صورت چھوڑ دیتا ہے۔ہمارے ہاں کی کالم رائٹنگ بہت آسان ہے۔جو دیکھو گے بیان کروگے۔ جو کسی اور پر بیتی وہ بیان ہوگی یا جو اپنے اوپر بیتی اس کو قلم کے سہارے الفاظ کا روپ دینا ہے۔ ہم معاشرے کا گریبان کیا چاک کریں گے۔رائٹر کی لکھاوت میں اس کا لوکیل پورے کاپورا اثر انداز ہوتا ہے۔اپنے ظاہر باطن ارد گرد میں گونا گوں مسائل ہیں جو پھن پھیلائے یا تو ثابت نگل لینے کے درپے ہیں یا پھر سانپ کی صورت اپنی پھنکارتی ہوئی زبان سے ڈستے ہیں۔جیسے گھر میں لگی آگ جو کھڑکیوں سے باہر آتی ہو اس کے شعلے لال زبانیں ہلاتے ہوں۔ہمارا ماحول مسائل کی آماجگاہ ہے۔ہم تو صاحبِ کمال نہیں مگر اپنا سا بیان ہر کالم میں جاری کر دیتے ہیں۔ اس پر اثر ہوتا ہے یا نہیں اس سے ہمارا کام نہیں۔مگر کوئی پڑھ لے تو کیا بات ہے۔پھر کوئی اس پرعمل کرے تو کیا ہی بات ہے۔پھرکالم کی باتوں پر اگر عمل درآمد ہو توواہ واہ۔پھر صاحبِ کمال ہونا بھی تو اس معاشرے میں ایک سر اٹھاتا ہوا مسئلہ ہے۔کیونکہ ”یہاں صاحبِ کمال ہمیشہ آشفتہ حال رہے ہیں“۔ ”زندگی کم بخت چند روزہ ہے مگر یہ چند روز بھی کھٹن ہیں“ اتنے سخت کہ بندے کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ موجودہ صورتِ حال پر کس کی نظر نہیں۔آئے روز تو عوام الناس کی آنکھوں سے آنسو بھی جوں دریا بہتے ہیں۔”دریا دریا روتا ہوں صحرا صحرا وحشت ہے“ آدمی بھاگ کر کہاں جائے۔پھر ”جو اس شور سے میر روتا رہے گا۔ تو ہمسایہ کاہے کوسوتا رہے گا۔میں وہ رونے والا چلا ہوں جہاں سے۔جسے ابر ہر سال روتا رہے گا۔“ بقول احمد فراز ”شمع کی لو تھی کہ وہ تو تھا مگر ہجر کی رات۔دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے“۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عنوان نہ ہو۔مگر جب کہیں باہر سے چکر لگا کر آئیں اور دماغ حاضر رکھا ہو آنکھوں کے دیپ جلاکر دن کو اندھیرے کا سماں دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔بندہ کو وہ وہ عنوانات مل جاتے ہیں کہ ہر عنوان کی خواہش اس کے ضمیر سے نکل کر آگ کی صورت الاؤ میں دیکھنے والے کی آنکھوں کو سرخ کرجاتی ہے۔ہر مسئلہ اتنا بھیانک اور اتناضروری ہوتا ہے کہ قطار میں سے نکل کر گریبان کی کھڑکی کے پاس آکر اس کو نچوڑنے لگتا ہے۔چیختا ہے کہ پہلا حق میرا ہے مجھے لکھنا ہے۔دوسرا اس سے آگے بڑھ جاتا ہے اور شور مچاتا ہے کہ حق میرا تھا مجھے لکھو۔ مگر کوئی ایک عنوان زیادہ چابک دست اور زور آور ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو خود لکھواتا ہے۔کیونکہ کالم نویس تو کچھ اور لکھنے بیٹھا ہوتا ہے۔مگر کاغذ کے میدان پر جنگ کی صورت میں کچھ اور نقشہ بن جاتا ہے۔”میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں۔دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی“۔کمپیوٹر کے کی بورڈ پر جب کالم لکھنے کو انگلیاں رقصاں ومستاں ہوتی ہیں تب تنہائی میں کیا کیا میلے لگتے یہ تو وہی جانتا ہے جس کو کالم پڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔پھر جو خود رائٹر ہو۔”کس کو بتلائیں کہ آشوبِ محبت کیا ہے۔ جس پہ گذری ہے وہی حال ہمارا جانے“۔فراز سے الگ فیض نے اسی صورت حال کی عکاسی یوں کی ہے ”ہم پرورشِ لوح وقلم کرتے رہیں گے۔گذری ہے جو اس دل پہ رقم کرتے رہیں گے“کتنے آئے لکھتے رہے گئے مگر مسائل وہی کے وہی۔مرزاغالب یاد آ تا ہے اور اکثر یاد آتا ہے ”لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں۔ ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔ہم نے لکھنا ہے۔میں نے لکھنا ہے۔میں لکھوں گا یہ عزم ہو تو تاریخ کے صفحات جو تاریخ دان سے زبردستی لکھوائے گئے ہوتے ہیں ان کی حقیقت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔اسی تاریخ کو آئندہ کی نسلیں اٹھا کر دیکھیں تو زمین پر پٹخ دیا کرتی ہیں۔مگر تاریخ لکھنا ہے تاریخ بنا نا ہے۔کیونکہ آئندہ کی نسلوں کو کچھ دینا ہے۔انھیں سمجھانے کی ذمہ داری ہمارے سر ہے۔