اس وقت افغانستان میں حکومت کی تشکیل کے بعد کے مراحل طے ہو رہے ہیں اور پہلی مرتبہ بھارت کا اثر رسوخ افغانستان سے ختم ہوچکا ہے، تاہم اس کی بھر پور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ پاکستان اور افغان عوام کے قریب آنے کے اس موقع کو سبوتاژ کرے تاہم اس طرح کی کوششیں دونوں برادر اسلا می ملکوں کو مو قع دیتی ہیں کہ دونوں مما لک تیسر ے کر دار کی کا رستا نیوں سے ہوشیا ر رہیں۔ اس کا پس منظر تاریخ نہیں حا لا ت حا ضرہ کا ایک باب ہے 15اگست 2021تک امریکہ، نیٹو مما لک اور بھا رت کا افغا نستا ن پر راج تھا ان کی حکومت تھی ان کی مر ضی چلتی تھی ان کے حکم کو ما نا جا تا تھا 15اگست 2021کے دن خا موش انقلا ب آیا امارت اسلا می افغا نستا ن کے حکمران کسی جنگ و جدل اور مزا حمت کے بغیر کا بل میں داخل ہوئے قصر صدارت پر ان کا قبضہ ہوا افغانستان کی حکومت معزول ہو گئی 3لاکھ افغا ن فوج اردوئے ملی ہتھیا ر اٹھا ئے بغیر منظر سے غا ئب ہو گئی ہتھیا ر ڈالنے کی نو بت بھی نہیں آنے دی‘یہ سب کچھ سابقہ حکمرا نوں کے وہم و گما ن میں نہ تھا‘اس موقع پر بھارت اپنے گما شتے افغا نستا ن میں پھیلا دئیے تا کہ ان کے مفا دات کا کسی نہ کسی حد تک تحفظ ہو پا کستان کے ساتھ افغا ن ملت کی دوستی مستحکم نہ ہونے پا ئے اور اما رت اسلا می افغانستا ن کی حکومت پائیدار بنیا دوں پر استوار نہ ہو۔ افغانستان کی سرزمین کو بھارت نے برس ہا برس سے پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے اور اب اپنے مقاصد کی تکمیل میں اس کو پا کستان کا ایک چبھتا ہوا کا نٹا نظر آرہا ہے اور کا بل پر وار کرنے سے پہلے اسلا م آباد پر وار کر تے ہیں۔گزشتہ دنوں امدادی سامان بھیجنے کے موقع پر پیش آنے والا واقعہ معمولی بات ہے آگے تیسرا کر دار اور بھی کا م کریگا بھارت اور امریکہ دونوں افغا نستا ن واپسی کا بہانہ تلا ش کررہے ہیں وہ کسی اہم عمارت میں دھماکہ کر کے اس کا الزام پاکستان پر لگائیں گے یا وہ کسی اہم شخصیت کو قتل کر کے اس واردات میں پا کستان کو ملوث کرینگے‘ انکے پاس شرارت کے اور بھی کئی راستے ہیں حا لیہ دنوں میں دو اہم یورپی مما لک کی طرف سے پا کستان میں کر کٹ کھیلنے سے انکا ر کے پس پر دہ بھی ایسی طا قتوں کا ہا تھ ہے جو پا کستان اور افغا نستا ن کے درمیاں برادرانہ قربت کو حسد اور رقابت کی نظر سے دیکھتے ہیں غلط فہمیاں پیدا کر نے میں تیسرا کردار سب سے زیا دہ فعال ہو تا ہے اور افغا نستا ن میں ہمارا اصل مقا بلہ تیسرے کردار سے ہے دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کسی غلط فہمی کو اس زاویے سے دیکھنا چا ہئے اور اس کا حل بھی تلا ش کر نا چا ہئے۔