اَچھے بُرے معالجین

علاج کی جدید سہولیات اور اَفرادی قوت و دیگر ضروری وسائل کی کمی کے باوجود اِیبٹ آباد کے ’اَیوب ٹیچنگ ہسپتال‘ میں ایک نہایت ہی مشکل آپریشن کامیابی سے سرانجام پایا ہے جس کی سوشل میڈیا پر دھوم مچی ہوئی ہے اور اندرون و بیرون ملک سے ماہرین طب کے علاؤہ طلبہ اور عام صارفین پاکستان کے معالجین کی مہارت اور خدمت خلق کے جذبے کو سراہا رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک شادی شدہ خاتون اپنے تین بچوں کے ہمراہ گھر کے صحن میں بیٹھی تھی کہ اندھی گولی اُس کے بدن میں پیوست ہوئی اور دل کے انتہائی نازک حصے میں اندر تک جا گھسی۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک کیا ہوا ہے۔ اہل خانہ نے خون میں لت پت مریضہ کو قریبی ہسپتال پہنچایا جس کے بعد سے پشاور کے مختلف نامور معالجین اور سرکاری و نجی ہسپتالوں سے رجوع کیا گیا مگر  مریضہ کی حالت ہر دن خراب ہو رہی تھی اُمیدیں دم توڑ رہی تھیں کہ ہمدرد معالج کے مشورے سے مریضہ کو ایوب ہسپتال ایبٹ آباد معائنہ کیلئے لایا گیا جہاں شعبہئ تھرویسک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر زاہد علی شاہ شہرت یافتہ ہیں اور انہوں نے ابتدائی تشخیص ہی میں دریافت کر لیا کہ گولی دل کے اندر خانے میں موجود ہے اور خون کے ساتھ حرکت بھی کر رہی ہے۔ دل سے گولی نکالنے کیلئے انتہائی پیچیدہ جراحت کی اور پانچ گھنٹے سے زائد طویل مشق کے بعد وہ اپنی اِس کوشش میں ’بفضل خدا‘ کامیاب رہے۔ اندھی گولی نکالی جا چکی ہے اور مریضہ تیزی سے رو بہ صحت ہو رہی ہے۔ مرض اِس لئے پیچیدہ تھا کہ اُس کے جسم میں موجود ہونے کے باوجود بھی گولی گم تھی‘ جسے تلاش کرنا اپنی جگہ ایک مشکل کام تھا اور وہ بھی ایک ایسی تلاش جس میں مریض کے جسمانی اعضا کی حرکت روکی نہیں جا سکتی تھی۔ مریضہ کو نشہ دینے کے باوجود بھی ایک خاص رفتار سے دھڑک رہا تھا اور اِس دھڑکتے (حرکت کرتے) دل کو ٹٹولنا اور اُس کے کم سے کم حصے کو کاٹ کر گولی نکالنا قطعی آسان نہیں تھا۔ اگر متعلقہ معالج (ڈاکٹر زاہد) بشمول نشہ دینے والے ماہر (ڈاکٹر رحمت) اور سرجری میں معاونت کرنے والا طبی عملے کے اراکین پہلے ہی سے مشکل آپریشنز کرنے میں مہارت نہ رکھتے تو قریب چھ ماہ سے دل میں پھنسی گولی نکالنا قطعی آسان نہیں تھا اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں خیبرپختونخوا میں علاج معالجے (شعبہئ صحت) سے متعلق فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ آلات‘ مالی وسائل اور افرادی قوت کی کمی دور کر دیں اور ڈاکٹروں کو اپنے ملازمتی حالات اور اوقات کار سے متعلق ذہنی اِطمینان و آسودگی حاصل ہو‘ڈاکٹر زاہد ’تھرویسک (thoracic)‘ سرجن ہیں اور پاکستان میں اِس شعبے میں ماہر معالجین کی تعداد قریب 100 یا اِس سے کم ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں صرف بمشکل دو یا تین سرجنز اِس قسم کے پیچیدہ آپریشنز کرنے کی مہارت و تجربہ رکھتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ تھرویسک سرجری میں کسی مریض کے سینے میں موجود صرف دل ہی نہیں بلکہ تمام اعضا کی سرجری ہوتی ہے اور یہ عمل بیک وقت کئی چھوٹے بڑے آپریشنز کا مجموعہ ہوتا ہے‘ جس کیلئے نہ صرف وافر مقدار میں خون کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ دل کی دھڑکن اور خون کے دباؤ (بلڈپریشر) کو برقرار رکھنے کیلئے مشینی آلات کی بھی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ (بقول ڈاکٹر) مغربی ممالک میں دل کا آپریشن صرف اُسی صورت کیا جاتا ہے جبکہ مریض کی دھڑکن اور خون کا دباؤ مشینوں کے ذریعے کنٹرول ہو رہا ہو کیونکہ اِن دونوں مراحل میں ڈاکٹر یا معاون طبی عملے کے کسی رکن کی معمولی سی غلطی یا کوئی غلط فیصلہ جان لیوا (ناقابل تلافی) نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد نے طب کی تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل میں ’آرتھوپیڈک سرجری‘ کا انتخاب کیا تھا لیکن اُنہیں جلد ہی اِس بات کا احساس ہوا کہ ’تھرویسک سرجری‘ میں معالجین کی کمی ہے اور تبھی سے اُن کی توجہ امراض قلب میں جراحت پر مرکوز ہے۔ ایبٹ آباد کا ’ایوب ٹیچنگ ہسپتال‘ ہو خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلعی یا ڈویژن میں قائم سرکاری علاج گاہیں‘ جراحت اور علاج معالجے کے شعبوں پر مریضوں کا غیرمعمولی بوجھ ڈاکٹروں کیلئے پریشان کن ہے۔ اِس سلسلے میں معالجین سے ہوئی بات چیت میں نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی اکثریت نے ملازمتی اوقات کار کے بارے شکایت کی کہ سرجری کرنے والوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہونا چاہئے اور جراحت کے شعبے میں ماہرین کی تعداد بڑھانے کیلئے خصوصی تربیتی مراکز اور ہسپتالوں میں نئے شعبہ جات قائم کئے جائیں۔ علاؤہ ازیں سرجری وارڈز‘ بستروں اور آپریشنز تھیٹرزکی تعداد میں اضافے ہونا چاہئے۔