سڑک پر مرغیوں سے بھری گاڑی جا رہی تھی۔ ڈرائیور نے اپنے دروازے کے شیشے کے اوپر سے ایک بھرا ہوا چھوٹا شاپر اٹھا کر سڑک کنارے دے مارا۔مگرڈاٹسن تو آگے بڑھ گئی۔مگر اس کا نشانہ جو خطا ہوا تو شاپرروڈکے درمیان میں جا پڑا۔اس میں سے گند گریل بکھر کر ہمارے رویوں کی داستان سنانے لگا۔صاف ستھری سڑک اور اس پر ایک گند کا تھیلا وہ بھی منتشر کتنا برا لگ رہاتھا۔ لیکن مجھ میں تو اتنی ہمت نہ تھی اور نہ اتناچانس تھا کہ بھاری بھرکم سڑک کے عین بیچ میں رک کر نیچے سے وہ کوڑا اکٹھا کرتا اور نئے سرے سے اسی شاپر میں ڈال کر کہیں قریب کے ڈھیر پر ٹھکانے لگا دیتا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یہاں جھپاک سے گذرنے والی گاڑیوں کے درمیان جان کا خطرہ تھا۔ کچھ ہی روز پہلے ایک چمچماتی ہوئی گاڑی سڑک کے عین درمیان جاتی پڑی تھی۔ اس میں گھریلو افراد جن میں خواتین و بچے سوار تھے۔ گاڑی کا شیشہ کھلا اور اس میں سے کیلوں کے چھلکوں کا تھیلا کسی نے بیچ سڑک کے پھینک دیا۔ یہاں سڑک پر کیلے کے چھلکے گاڑیوں کی ایکسیڈنٹ کیلئے کتنے خطرناک ہیں۔مگر کسی کو پروا ہی نہیں۔ اصل میں ہمارے ہاں تربیت کی کمی ہے۔اگر ہم گھر ہی میں بچوں کو یہ بات سکھلائیں کہ گند کا ایک تنکا کیوں نہ ہو اٹھا کر باسکٹ میں پھینکیں۔جب بچوں کو گھر سے یہ ٹریننگ حاصل ہوگی تو وہ بڑے ہوکر بھی اور گھر سے باہر جا کربھی تہذیب کا مظاہرہ کریں گے۔ کتنی جانکاہ ہے ضمیر کی موت۔ کتنا آساں ہے بے وفا ہونا (احمد فراز)۔ جب ضمیر ہی مر جائے تو پھر ہر برا کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔پھر بندہ ہر قسم کی برائی کو گلے سے لگا کر پیار کرتا ہے۔ہم لوگ ساحلِ تہذیب لاشوں کی صورت میں ہیں۔جان توہے مگر اندر کا انسان جو مرگیا ہے۔جب اندر سے موت واقع ہوجاتی ہے تو بندہ دنیا کے اس چمن کیلئے کانٹا بن جاتاہے۔جو دوسروں کو بھی چھبتا ہے اور خود کو بھی کاٹتا رہتا ہے۔ہمارے ہاں صفائی کے معاملے میں سخت لا علمی ہے۔ہم گھر کی کھڑکی کھول کر کوڑے سے بھرا شاپر نیچے گلی کی نالی میں پھینک دیتے ہیں۔پھر پھینکتے وقت ہمیں لاج بھی نہیں آتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نالی ان شاپروں کیلئے بنی ہوئی ہے۔مگر ان کو کون بتلائے یہ نالی تو گندے پانی کی گذر گاہ ہے۔وہ تو سمجھتے ہیں کہ چلو ہم نے شاپراس کے اندر پھینک دیا تو بھلے کا کام ہوا۔ پھر یہی گلی محلے کے لوگ صفائی کے محکمے کے عملے کی شکایت کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ نالے اُبل رہے ہیں گندا پانی باہر آتا ہے تو صفائی والے اس پر توجہ نہیں دیتے۔مگر ان نالوں کی بندش کا قصور تو اس کے قریب رہنے والے رہائشیوں کا ہے۔ایک چیز پانی کیلئے بنی ہواور اس میں آپ کوڑے کے بڑے شاپر پھینک دیں تو کیا نالی بند نہیں ہوگی۔مگر ”کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم“ کس کس کے سینے میں اپنا دل ڈالیں گے۔ ایک دل ہے اور ہزار مقامات ہیں کہ جہاں اس کا استعمال کر کر کے ہم عوام کوسمجھا سکتے ہیں۔”مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں“۔سب سے پہلے کا قدم یہ ہے کہ ہم خود اس بات کو سمجھتے ہوں۔ وہ یہ کہ نالیوں کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں پر تکہ فروش ہیں۔وہاں کڑاہیاں صاف کی جاتی ہیں۔ سارے کا سار ا گند ہڈیوں سمیت نالوں اور نالیوں میں ڈال دیتے ہیں۔پھر یہ ایک دن کی بات تو نہیں ”اب تو روزانہ کایہ معمول ہوا“۔روز نالیاں بند ہو جاتی ہیں۔پھر یہی لوگ بڑی بڑی لوہے کی سلاخوں کے سروں پر کپڑا باندھ کر ان نالیوں میں سلاخیں گذار کر ان کے ساتھ زورآزمائی کر رہے ہوتے ہیں۔اگر ایک باقاعدہ سسٹم کے تحت ٹھوس گند کو ایک بڑے شاپر میں ڈال دیں یا کسی ٹین کے بڑے ڈبے وغیرہ میں جمع کریں۔اس کو پھر سڑک کنارے اپنی دکان کے باہر رکھ دیں تو دن چڑھے صفائی والے آکر گند اٹھا لیں گے۔ شہریوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ تنگ نالی میں بڑا گند کا شاپر کیوں پھینکتے ہیں۔نالی میں گند پھینک کرفخر سے واپس مڑتے ہیں۔سمجھتے ہیں ہم نے بڑا کام کیا۔مگر انھیں کے گھر کے باہر وہی گند نالی میں جمع ہو کر خود ان کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔پھر یہی لوگ بھاری رقم دے کر کسی صفائی والے کو بلوا کر نالیاں کھلواتے ہیں۔ پھر اگر آپ دیکھ پائیں تو لوہے کے چار منہ والے کنڈے کا بیلچہ لے کر گلیوں کے کونوں پر موڑکے ساتھ نالی کے اوپر دو پاؤں یہاں وہاں رکھ کر گند کے ساتھ زور آزمائی میں مصروف ہوتے ہیں۔جب تک ہم خود ٹھیک نہ ہوں گے تو ہمارے معاشرے کا درست ہونا کسی کتاب میں نہیں لکھا۔اب ہر کام حکومت تو نہیں کرسکتی کچھ تو ہم نے کرنا ہے اور یقین ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔