آکس معاہدہ کے مضمرات 

آکس AUKUSکے نام سے امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے مابین پندرہ ستمبر کو سامنے آنے والا سمجھوتے اور انڈو پیسفک اتحاد کو مستقبل کے عالمی منظرنامے کی تشکیل میں اہم عامل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔امریکہ کے بقول اس معاہدے کا سب سے بڑا مقصد ”سیکورٹی خدشات“کے خلاف اتحادی ممالک کی عسکری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جوہری عدم پھیلا ؤکے علمبردار امریکہ اور برطانیہ ایک غیر ایٹمی ملک آسٹریلیا کو ایٹمی صلاحیت کیوں دے رہے ہیں اور کس کے خلاف مضبوط کرنا چاہتے ہیں؟اگرچہ معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کسی نے چین کا نام نہیں لیا اور وائٹ ہاوس نے اصرار کیا کہ یہ کسی ملک کے خلاف نہیں مگر خیال کیا جارہا ہے امریکہ آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ اس دفاعی معاہدے اور انڈوپیسفک اتحاد کے ذریعے جنوبی بحیرہ چین میں چینی اثر و رسوخ کم کرنا، چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کو لگام ڈالنا، جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آسٹریلیا کو اس کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک اپنے مشترکہ اقدار کے تحفظ اور ہند بحرالکاہل کے خطے کی سکیورٹی اور خوشحالی کیلئے یہ تاریخی معاہدہ کررہے ہیں۔ امریکہ اس خطے میں جاپان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، ویتنام اور انڈیا وغیرہ ممالک کے ساتھ شراکت داریاں مستحکم کرنے کو بھی توجہ اور وسائل دے رہا ہے۔آسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ مورسن کے مطابق ان کا ایٹمی ہتھیار یا سول جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا ارادہ نہیں اور یہ آبدوزیں ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ صرف جوہری ایندھن کی حامل ہوں گی۔ تاہم چین نے امریکہ کی جانب سے جوہری ٹیکنالوجی کی اس برآمد کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ممالک سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی تعصبات کا شکار ہیں۔ واضح رہے امریکہ 1958 میں برطانیہ کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر چکا ہے۔ اس کے بقول اس معاہدے سے علاقائی امن اور استحکام کو شدید نقصان پہنچے گا، ایٹمی پھیلا کو روکنے کی کوششیں خطرے میں پڑ جائیں گی اور اسلحے کی دوڑ میں شدت آ جائے گی۔اس معاہدے کے ذریعے آسٹریلیا چین کے مخالف کیمپ میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بیٹھ چکا اور یہ انڈو پیسفک خطے میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں چین اور آسٹریلیا کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے چین اور آسٹریلیا کے مابین ماضی میں وسیع تجارتی تعلقات رہے ہیں اور چین کے بہت سے طلبا آسٹریلیا میں زیر تعلیم ہیں۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کی ایک حالیہ وجہ آسٹریلیا کی جانب سے کورونا وائرس کی چین میں ابتدا بارے تحقیقات کی حمایت تھی۔ دونوں ممالک آر سی ای پی نامی دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک میں کوریا، جاپان، اور نیوزی لینڈ سمیت 14 ممالک کے ساتھ بھی شامل ہیں۔ چین نے آسٹریلیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ چین کو شراکت دار سمجھتا ہے یا خطرہ۔امریکہ چین کو مستقبل کا حریف سمجھتا ہے۔ اسے انڈو پیسفک اور جنوبی بحیرہ چین میں چین کے اقدامات بالخصوص جاپان، تائیوان اور آسٹریلیا سے متعلق مخالفانہ رویے پر تشویش رہی ہے۔ صدر براک اوباما کے دور میں امریکہ نے انڈو پیسیفک خطے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا شروع کی تھی۔ صدر بائیڈن کے مطابق یہ معاہدہ اس خطے میں طویل المدت امن اور استحکام کے فروغ کیلئے کیا گیا ہے۔ یہ جوہری آبدوزیں آسٹریلیا کیلئے جنوبی بحیرہ چین میں طویل بحری گشت اور اس اتحاد کی مضبوط فوجی موجودگی کا ذریعہ ہوں گی۔ واضح رہے جاپان، بھارت، آسٹریلیا اور امریکہ کواڈ نامی بندوبست میں بھی شامل ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کواڈ اور آکس دونوں کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ مستقبل میں دفاعی اور تزویراتی تعاون کریں گے جس کے جواب میں چین بھی اقدامات کرے گا اور اتحاد بنائے گا۔ آکس کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری ایندھن سے لیس کم از کم آٹھ آبدوزیں اور ٹام کروز میزائیل بنانے اور تعینات کرنے کی ٹیکنالوجی دینگے یہ جوہری آبدوزیں اب تک دنیا کے صرف چھ ممالک کے پاس ہیں اور آسٹریلیا جوہری ایندھن والی آبدوز رکھنے والا ساتواں ملک بن جائے گا۔ ان آبدوزوں کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے‘رفتار زیادہ ہوتی ہے، کئی مہینے زیر سمندر رہ سکتی ہیں اور طویل فاصلے تک میزائل داغ سکتی ہیں۔ تینوں ممالک سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت، کوانٹم ٹیکنالوجی اور انٹلیجنس معلومات شیئر کرنے پر باہمی تعاون کریں گے۔ یاد رہے یہ تینوں ممالک خفیہ معلومات کی فراہمی کے پانچ ملکی اتحاد فائیو آئیز کے بھی رکن ہیں جس میں کینیڈا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں۔آسٹریلیا نے اس سے پہلے 2016  میں فرانس کے ساتھ نوے ارب ڈالر مالیت کے بارہ روایتی آبدوز بنانے کا معاہدہ کیا تھا مگر اب اس نے وہ معاہدہ منسوخ کردیا ہے جس پر فرانس نے شدید برہمی کا اظہار کیا افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے اچانک فیصلے کے علاوہ جو بائیڈن انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں کئی عالمی مسائل پر یورپی یونین کے بغیر اکیلے فیصلے کئے ہیں جس کی وجہ سے یورپی یونین خوش نہیں ہے۔ ادھر اس معاہدے کے اعلان کے فورا ً بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا آرڈرن نے اپنے ملک کی آبی حدود میں جوہری طاقت والے جہازوں کے داخلے پر پابندی کا اعادہ کیا۔آسٹریلیا کے ساتھ فرانس کی کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔ آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم سکاٹ ماریسن نے کہا معاہدہ ختم کرنے پر فرانس کی مایوسی کو سمجھتے ہیں مگر ہم نے فیصلہ قومی مفاد میں کیا ہے۔ فرانس کے صدر ابھی تک آسٹریلوی وزیراعظم کی فون کا جواب نہیں دے رہے۔ مگر امریکی اہلکار فرانس کو اپنا سب سے پرانا اتحادی اور سب سے اہم پارٹنر ملک قرار دیتے ہیں‘ صدر بائیڈن نے 90 بلین ڈالر کے سب میرین معاہدے کی منسوخی سے قبل فرانس کو انتباہ نہ دینے پر معذرت کی اور ہند بحر الکاہل کے اہم دفاعی فیصلوں سے آئندہ پیرس کو الگ نہ کرنے کا وعدہ کیا جس کے بعد فرانس کے صدر نے صرف امریکہ کو اپنا سفیر واپس بھیجنے پر آمادگی ظاہر کردی۔آکوس میں اگرچہ برطانیہ بھی شامل ہے اور فرانس نے اس پر مسلسل موقع پرستی کا الزام لگایا مگر فرانس نے نہ اس سے سفیر واپس بلایا نہ اس پر سخت تنقید کی‘ صدر بائیڈن نے گذشتہ ہفتے چین کے صدر شی جن پنگ سے فون پر بات کی جب کہ آسٹریلوی وزیر اعظم نے عالمی امور پر بات چیت کیلئے صد رشی جن پنگ کو دعوت دی ہے۔دوسری جانب چین نے خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے CPTPP یعنی گیارہ ممالک کے جامع و ترقی پسند ٹرانس پیسفک معاہدے کی رکنیت کیلئے اس کے منتظم نیوزی لینڈ کو درخواست دی ہے۔ یہ معاہدہ ٹی پی پی کے نام سے چین کے بڑھتے معاشی اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے صدر بارک اوبامہ نے کیا تھا مگر صدر ٹرمپ نے 2017 میں امریکہ کو اس سے نکال دیا جس کے بعد 2018 میں سی پی ٹی پی پی کے نام سے نیا معاہدہ کیا گیا جس میں گیارہ ممالک شامل ہوئے۔ تاہم خدشہ ہے چین کی جانب سے اس پر مزید سخت ردعمل بھی آ سکتا ہے۔