طب کی تعلیم: روشن مستقبل؟

پاکستان میں طب کی تعلیم (میڈیکل ایجوکیشن) کا مستقبل کتنا روشن ہے اور میڈیکل (MBBS) یا ڈینٹل (BDS) کی تعلیم کے معیار (بشمول درس و تدریسی سہولیات) میں ہر سال‘ حسب آبادی اضافہ یا آبادی کے تناسب کے مقابلے ہر سال کمی ہو رہی ہے؟ اِس جیسے بہت سارے سوالات کا جواب تلاش کرنے کیلئے جائزہ لینا پڑے گا کہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC)‘ کے نام سے قائم وفاقی ادارے کے قواعد و ضوابط کیا ہیں اور کیا اِس ادارے سے وابستہ طبقات کی توقعات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں؟ علاوہ ازیں پاکستان میں طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کا تعلیمی و تدریسی بندوبست کیا ہے اور اِس میں خرابیاں دور کرنے (اصلاحات) کی کوشش میں کون کون سی خرابیاں داخل ہو گئی ہیں‘ جنہیں دور کئے بغیر طب کی تعلیم قابل اطمینان و معیار نہیں ہو سکتی جبکہ متعلقہ فریقین یعنی فارغ التحصیل ہوئے ڈاکٹرز‘ طب کے شعبے سے وابستہ تدریسی عملہ‘ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم (پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن)‘ نجی تعلیمی اداروں (پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز) کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیویشنز (PAMI) کے اراکین اور طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات‘ اِن کے والدین اور اساتذہ کی اکثریت کے شکایات‘ تحفظات‘ خیالات اور تجاویز بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں‘ جنہیں محض اِس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اختلافی نکتہئ نظر ہر طبقے کے ذاتی یا کاروباری مفادات کے عکاس ہیں۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان میں طب کی تعلیم کا قبلہ اُس وقت تک درست نہیں ہوگا جب تک اِس سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کرنے میں کثیرالجہتی و جامع مشاورت نہیں کی جاتی اور حقیقی اہل اور متعلقہ ماہرین کی سمجھ بوجھ اور جذبے کو اصلاحات لاگو کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔طب کی تعلیم کے حوالے سے اعتراضات کی طویل فہرست میں اگر کسی ایک نکتے کو پکڑ کر اِس الجھن (گھتی) سلجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ سردست پاکستان میڈیکل کمیشن نے نئے تعلیمی سال (2022ء) میں داخلے کیلئے 65فیصد نمبرات حاصل کرنے کی بنیاد پر اہلیت کا جو معیار (پیمانہ) بصورت ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ مقرر کیا ہے اُس کی وجہ سے پاکستان کے سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ (اہلیت رکھنے کے باوجود بھی) نااہل ہو گئے ہیں جس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے 2 پہلو ہیں۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ جو طلبا و طالبات ’ایم ڈی کیٹ امتحان‘ میں 65 فیصد نمبر حاصل نہیں کر سکے اور وہ طب کی تعلیم بہرصورت حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بچپن سے اُن کے ذہنوں میں یہی بات ڈالی گئی کہ اُنہیں بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا ہے‘ اِس لئے وہ سوائے ڈاکٹری کسی دوسری تعلیم کو اہم نہیں سمجھتے۔ ایسے طالب علموں میں بڑی تعداد اُن بچوں کی ہوتی ہے جن کے والدین کم مالی وسائل کے باوجود بچوں کو بیرون ملک بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ طب (میڈیکل یا ڈینٹل) کی تعلیم حاصل کرنے جیسے خواب کی تعبیر کر سکیں۔ اِس صورت میں پاکستان سے صرف ذہین و اہل طالب علم ہی نہیں بلکہ داخلہ فیسوں‘ ٹیویشن فیسوں‘ آمدورفت اور قیام و طعام و دیگر ضروریات کی صورت ’قیمتی زرمبادلہ‘ بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے بیرون ملک کے تعلیمی اداروں کی درجہ بندی جاری کر رکھی ہے جس کے تحت تین درجات (گریڈ اے‘ گریڈ بی اور گریڈ سی) کے کالجز کی نشاندہی کی گئی ہے۔ عام فہم زبان میں بات کی جائے تو بیرون ملک طب کی تعلیم اخراجات کے لحاظ سے دو درجات میں تقسیم ہے جبکہ بیرون ملک تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار میں ایک جیسا ’ناقابل اعتبار‘ ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک ہوں یا ایشیائی اور وسط ایشیائی ریاستیں یا چین و افریقہ‘ اِن تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان واپس آنے والوں کیلئے لازم ہے کہ وہ ’نیشنل لائسینسینگ ایگزیم (NLE)‘ میں کامیاب ہوں بصورت ِدیگر وہ پاکستان میں طب کی مزید تعلیم یا اِس شعبے میں ملازمت کرنے کیلئے اہل تصور نہیں ہوں گے۔ اِس مرحلے پر 2 ضمنی اقدامات (اصلاحات) کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان میں کامیابی کیلئے مقررہ نمبرات کی شرح 65 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد مقرر ہونی چاہئے تاکہ طب کی تعلیم کے خواہشمند طلبہ کی زیادہ سے زیادہ تعداد پاکستان ہی میں تعلیم حاصل کرے اور یوں ذہین بچے اور قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک منتقل نہ ہو۔ دوسری ضرورت طب کی تعلیم کے موجودہ بندوبست میں وسعت اور اِس شعبے میں موجود نجی سرمایہ کاری کے امکانات سے فائدہ کی ہے۔ نجی تعلیمی ادارے نہ صرف روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہیں بلکہ اُنہوں نے تعلیم کے شعبے میں حکومت کا بوجھ بھی بانٹ رکھا ہے اور اگر اِن نجی تعلیمی اداروں کی تعداد یا اِن سمیت سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد (گنجائش) میں اضافہ کیا جائے تو اِس سے طلبہ اور اِن کے والدین میں پائی جانے والی تشویش بڑی حد تک کم ہو جائے گی۔ بنیادی بات آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح اور اِس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مانگ (طلب) کو پورا کرنے کی ہے۔