ہمارے ہا ں اب بھی کئی لوگ زندگی کا چراغ خود ہی گل کر رہے ہیں۔ ایک عورت اپنے بچوں کو لے کر دریا میں کودگئی تھی۔ اس کو غربت سے نجات مل گئی تھی۔ اس کو اس مسئلے کا بہترین حل یہی نظر آیاتھا۔پھر یہ تو ہمارے ہاں آئے روز کے واقعات ہیں۔ جن میں ان دنوں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔ایک مر دنے اپنے بچوں کو مار کر بعد میں خود کو مار ڈالا۔ اس کی خبر اور تصاویر سوشل میڈیا پر خوب اپ لوڈ ہوئیں۔ ہر بار الیکشن کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہم غربت کا خاتمہ کریں گے مگر غربت کا خاتمہ تو نہ ہوا الٹا غریبوں کا خاتمہ ہونے لگا۔ روٹی‘کپڑا مکان کا نعرہ لگایا گیا۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ عوام کو میٹھی گولیاں دی جاتی رہیں۔ بعد میں آنے والوں نے اس سے زیادہ نئے نعرے دیئے مگر قوم کا بھلا کہیں نہ ہوا۔ بلکہ آج کل مہنگائی تو سر پہ ناچنے لگی ہے۔لوگ ادھ موئے ہوچکے ہیں۔ بازاروں کی وہ رونقیں جو چلو کچھ برسوں پہلے غنیمت تھیں وہ بھی اب نہ رہیں۔ لوگ ہیں بازار ہیں اور مال بھی ہے مگر گاہک نایاب ہیں۔ وہ اپنے گھر کے اندھیروں میں گم ہو چکے ہیں۔کہیں موقع ہو ضرورت ہو تو باہر نکل آتے ہیں۔مگر اکثر وہ اپنے گھر میں قید ہیں۔کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ان کو سمجھ نہیں آ رہا۔ ایک بزنس فلاپ ہوا تو انھوں نے اس حد تک کہ چھوٹا سا پتیلا لگا کر گلی کے باہر سوپ بیچنا شروع کر دیا۔پھر کسی نے چھلیاں لگا لیں دس بیس روپے میں ایک سٹہ مل جاتا ہے۔ان کاگذاراہو جاتا ہے۔بس گذارا ہے اور گذار رہے ہیں۔جو مال بنا رہے ہیں وہ بھی اسی دنیا میں رہ رہے ہیں۔وہ پہلے سے مضبوط بنیاد پرکھڑے ہیں۔مگر آنے والے زمانے کی مالی پریشانی سے گھبرا کر موجودہ دور میں بھی پیسہ بنا رہے ہیں۔ اس لئے کہ اگر آج یہ حال ہے تو جانے کل کیا حال ہوگا۔ کل ہماری کیا درگت بنے گی۔ لوگ رونے کونہیں آئے سچ مچ رو رہے ہیں۔ بال بچوں کو لے کرکہاں جائیں۔ ذرا سی ہانڈی پکانابھی اب ان کے بس میں نہیں رہا۔پاپڑاور ٹاپ پاپس بھی ان کے بس میں نہیں کہ بچوں کو دلا دیں۔ ان کے بچے روتے ہیں اور وہ خود تنہائی میں روتے ہیں اور دل ہلکا کر لیتے ہیں۔کیونکہ گرم گرم آنسوؤں سے دل کو ایک قسم کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔اس امید پہ ہیں کہ شاید حالات اچھے ہوں تو ان کی حالت بھی اچھی ہو جائے۔ مگر قریب قریب ایسا ہوتانظر نہیں آتا۔ مجھے وہ شعر یاد آتا ہے۔”بھوک سے تنگ زمیں پر یہ بلکتے انساں۔ ایک تاریخ نئی لکھیں گے سیاروں پر“۔پھر وہ شعر بھی تو دستک دینے لگا ہے۔ بستیاں چاند ستاروں پہ سجانے والوں۔ کرہ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ“۔ ایک اور شعر بھی ہو جائے”ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں ادا۔ کیا ڈھونڈنے گئے تھے مسافر خلاؤں میں“۔ خود اپنے لوگ غربت کے کارن زندگی سے اپنا ناتا توڑ رہے ہیں۔ سمیت بال بچوں کے دریاؤں میں کود رہے ہیں۔ ایک سائنسدان ہواکرتے تھے۔ جوزف ان کانام تھا۔کنبہ کثیر اور تنخواہ قلیل تھی۔ مختصر یہ کہ غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر انھوں نے خود اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا۔اب اس کی اس موت کا ذمہ دار کون تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ زہرخورانی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی۔ مگر سوچنا ہے کیا واقعی ان کی موت زہر کھا لینے سے ہوئی۔کیا ان کی زندگی کے خاتمے کی وجہ اور ذمہ داری زہر نگل لینے پر ہے۔کتابیں کاپیاں اور دستاویزات یہی کہیں گی کہ یہ سو فی صدسچ ہے کہ ان کی موت کی وجہ زہر تھی۔ مگر بہ غور دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ان کی موت کاذمہ دار زہر نہیں تھا۔ان کے اس اقدام کی وجہ ہمارا معاشرہ ہے۔جو غربت کو جڑ سے ختم کرنے کے قابل نہیں ہے۔لوگ اہل وعیال کے ساتھ زندگیوں کے خاتمے میں مصروف ہیں۔ لوگ تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہر کنارے اپنے رنگ و روغن کے برش لے کر بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو مزدوری دلائے لے جائے ان سے کام کروائے۔مگر ان کو معلوم نہیں کہ وقت نے اپنے ہاتھوں میں سفید رنگ کا برش اٹھا رکھا ہے اور ان کے کالے بالوں کو بے دردی کے سات وقت کی سفیدی کی نذر کر رہاہے۔