جمہوریت کا دوسرا نام ’سیاسی استحکام‘ ہے جس کے ذریعے نہ صرف ترقیاتی ترجیحات کے تعین میں درست فیصلے ہوتے ہیں بلکہ ترقیاتی کاموں کی پائیداری جیسا اہم ہدف بھی اِسی سے حاصل ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہئ کراچی کے دوران تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ”شہری مسائل کے حل کیلئے وفاق اور سندھ کے باہم مل کر کام کرنے پر زور دیا ہے“ جس کی عملی صورت اور خلوص کا اندازہ وفاق کی جانب سے سندھ کی جانب تعاون کے بڑھتے ہاتھ دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے تاہم وزیراعظم نے باہمی تعاون کی بات کی ہے تو موجودہ کشیدہ سیاسی ماحول میں جمہوری نظام کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ اگر کراچی ہی کے تناظر میں ملک کے دیگر علاقوں کے مسائل کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہر جگہ شہری مسائل ایک جیسے ہی نظر آئیں گے۔ وفاق اور پنجاب میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا تحریک انصاف کا گڑھ ہے جہاں شہری مسائل کے حل کیلئے مربوط پالیسیوں پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی غربت اور مہنگائی کے علاؤہ بجلی‘ نکاسیئ آب (سیوریج سسٹم) اور سڑکوں کی صفائی ستھرائی جیسے عمومی مسائل کی شدت کم ہواس مقصد کیلئے یقینا طرز حکمرانی کی اصلاح ہونی چاہئے جس کی طرف کسی حد تک پیش رفت ہورہی ہے۔ اس تناظر میں وفاق اور اس کی اکائیوں میں مثالی ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے روز افزوں روٹی روزگار کے مسائل میں بھی انہیں ریلیف دینے کا اہتمام ہو سکے اور ان کیلئے وبال جان بنے گلی محلے کے مسائل بھی ٹھوس بنیادوں پر حل ہونے کی کوئی امید بندھ سکے۔ سلطانی ِجمہور بنیادی طور پر عوام کے اعتماد کے ساتھ ہی آگے بڑھایا اور مستحکم بنایا جا سکتا ہے جبکہ عوام کا اعتماد ان کی ضرورتیں پوری اور مسائل حل کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کے پہلے دو سال کے دوران عوام کے مسائل حل کرنے کا فقدان رہا تو باقی ماندہ آئینی مدت میں طرزحکمرانی تبدیل ہونی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اِس بات کا بھی باور کرایا ہے کہ کراچی کی بہتری اور مسائل کے حل کیلئے سندھ اور وفاقی حکومت کو مل کر چلنا پڑے گا۔ انہوں نے بنڈل آئی لینڈ منصوبے پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا اور صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اپنی تقریر میں لاہور کے مسائل کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ”لاہور پھیلتا جا رہا ہے‘ ہم نے ابھی سے پلاننگ نہ کی تو مسائل بڑھ جائیں گے اُور کراچی کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔“ اگر وزیراعظم اور وفاقی کابینہ اراکین متوجہ ہوں تو پشاور کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پشاور جو پہلے تین اطراف میں پھیل رہا تھا‘ ضلع خیبر بننے کے بعد چاروں اطراف میں پھیل رہا ہے اور یہاں نقل مکانی کرنے والوں کی شرح اگر دیگر دو بڑے صوبوں (سندھ و پنجاب) سے زیادہ نہیں تو اُن کے مساوی ضرور ہے۔ وفاقی حکومت جس سیاسی استحکام اور صوبوں سے جس مثالی تعاون چاہتی ہے اُس کیلئے (اٹھارہویں آئینی ترمیم میں متعین) صوبائی حقوق کی ادائیگی ضروری ہے‘ جس کیلئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے وفاقی سے فراخدلی کے مظاہرے کی توقع رکھتے ہیں۔”ہماری زندگی کیا ہے محبت ہی محبت ہے …… تمہارا بھی یہی دستور بن جائے تو اچھا ہے (علی ظہیر لکھنوی)۔“