انتخابی اصلاحات

نتخابی اصلاحات متعارف کروانے میں سب سے زیادہ دلچسپی وزیر اعظم عمران خاں لے رہے ہیں جنہوں نے بالخصوص الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دیگر متعلقہ امور سے متعلق اپنی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اِس حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور تحفظات دور ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مروجہ فرسودہ انتخابی نظام ہی انتخابی دھاندلیوں کا باعث بنتا ہے۔ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتائج سے صرف ووٹ کی عزت ہی مجروح نہیں ہوتی بلکہ اِس سے ایک ایسا سیاسی کلچر بھی فروغ پاتا ہے‘ جس میں اہلیت کی بجائے سفارش سے کام ہوتے ہیں اور یہ استحصالی نظام ہمیشہ ہی سے حکمرانوں کے ہاتھ کی چھڑی بنا رہا ہے  چنانچہ اِس نظام کو انتخابات سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی سہولت ملتی رہی۔ اسی بنیاد پر ہارنے والی جماعتوں کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگا کر سیاسی‘ جمہوری عمل کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات خودمختار الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوئے مگر انتخابی نتائج کے بعد وہ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سے نہ بچ سکا چنانچہ اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم اپنا منصب چھوڑ گئے اور تحریک انصاف حزب اختلاف کی بڑی جماعت بن کر ابھری جس نے انتخابی دھاندلیوں کو اپنی احتجاجی تحریک کا مرکزی نکتہ بنا کر لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور ڈی چوک میں ایک سو چھبیس دن طویل دھرنا دیا۔ اسی تحریک کے دوران تحریک انصاف نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ بدعنوانی سے پاک معاشرے کے قیام اور آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے گی۔ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار کی منزل حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف نے اپنے پارٹی منشور کے مطابق کرپشن فری سوسائٹی اور انتخابی اصلاحات کیلئے اقدامات کئے‘ تحریک انصاف انتخابی اصلاحات کے ذریعے صرف انتخابی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی و سماجی نظام کو بھی درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے منتخب ہوں اور یہ حقیقی نمائندے منتخب ہونے کے بعد انتخابی و سیاسی مفادات کیلئے نہیں بلکہ عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے متحد ہوں۔ یادش بخیر سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی بجائے ”شو آف ہینڈز“ کا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا  اِس کے بعد وفاقی حکومت نے انتخابی دھاندلیاں روکنے کیلئے ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کرانے کی تجویز دی لیکن اِسے بھی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت رد کر دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے ’ای ووٹنگ‘ کیلئے بھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منظوری لینے کا عندیہ دیا گیا تاہم حزب اختلاف ڈٹ گئی اور فیصلہ کرنا پڑا کہ اِس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ پارلیمان کی اجتماعی دانش و بصیرت کا اِمتحان جاری ہے‘ جہاں ایک مشکل ’سیاست برائے سیاست‘ اور ’اختلاف برائے اختلاف‘ پر مبنی فکروعمل نے کھڑی کر رکھی ہے کہ حزب اختلاف نہیں چاہتی کہ حکمراں جماعت اپنے ’اصلاحاتی مشن‘ میں کامیاب و سرخرو ہو۔