طبی عملے پر تشدد کی روک تھام

پچھلے بیس سالوں سے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائین صوبہ ہونے کے ناتے خیبر پختونخوامیں معاشرتی سطح پر تشدد کے واقعات کااثر جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں آئے روز وقوع پذیرہونے والے پرتشدد واقعات کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے وہاں ان واقعات سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ صحت کا شعبہ متاثر ہواہے۔اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ بدامنی اور تشدد کا کوئی بھی واقعہ وقوع پذیرہونے کے بعد متاثرہ افراد اور خاندانوں کاپہلااور براہ راست واسطہ ہیلتھ کیئرورکرز سے پڑتا ہے جن میں ایمبولینس ڈرائیورز اور کلاس فور اٹینڈنٹ سے لیکر ڈاکٹرز،نرسنگ اور پیرامیڈیکل سٹاف تک سبھی کیڈر کے لوگ شامل ہیں۔ کسی بھی پرتشدد اور قتل وغارت کے واقعے کے نتیجے میں اگر ایک طرف طبی عملہ ہی وہ طبقہ ہے جس کے ساتھ متاثرہ زخمیوں یا قتل ہونے والے افراد اور ان کے لواحقین کا سامناہوتاہے تودوسری جانب یہی وہ طبقہ ہے جسے تمام تر مشکلات اور جان جوکھوں میں ڈالنے کے باوجودمتاثرہ خاندانوں کے درشت اور ناروا رویئے کے علاوہ بعض اوقات ان کے زبانی اور جسمانی تشدد کابھی سامنا کرنا پڑتا ہے ایساکیوں ہے اور تشدد کے یہ واقعات کیوں کر رونماہوتے ہیں اور ان سے سب سے زیادہ نقصان کس کو پہنچتا ہے نیز اس کا سدباب کیسے ممکن ہے اس صورتحال کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لینے کیلئے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور نے محکمہ صحت خیبرپختونخوااور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے اشتراک سے ایک ملک گیر تحقیقی مطالعہ کیا اور بعد ازاں اس مطالعے کی روشنی میں خیبر پختونخوا ہیلتھ کیئر سروس پرووائیڈرز اینڈ فیسیلیٹیز پریونشن آف وائلنس اینڈ ڈیمیج ٹو پراپرٹی ایکٹ2020کی گزشتہ سال دسمبر میں صوبائی اسمبلی سے منظوری لی گئی جس کے تحت ہیلتھ کیئر ورکرز پر تشدد میں ملوث افراد کو دس لاکھ روپے تک جرمانے اور تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔اس قانون کو موثر اور قابل عمل بنانے نیز صوبے میں ہیلتھ کیئر ورکرز پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے عوامی بیداری اور اس ضمن میں علماء کرام اور میڈیا کے موثر کردارکے پیش نظر گزشتہ دنوں خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور اور آئی سی آر سی کے اشتراک سے ایک گول میزعلماء کانفرنس کے علاوہ صحافیوں کی آگاہی کیلئے سیمینار منعقد کیاگیا۔ دراصل علماء کرام اور میڈیا کو معاشرے میں جو موثر مقام حاصل ہے اس کومد نظر رکھتے ہوئے توقع ہے کہ یہ دونوں طبقات طبی عملے پرفرائض کی ادائیگی کے دوران ہونے والے تشدد کی روک تھام میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔اس حقیقت سے شاید کسی کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ طبی عملہ فرائض کی ادائیگی میں ہر اول دستے کاکرداراداکرتاہے اور حالات چاہے ہنگامی ہوں،عمومی ہوں،وبائی صورتحال ہو،قدرتی آفت ہو یاجنگ اور تشدد کی حالت ہو طبی عملہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کو خطرے میں ڈال کر انسانی زندگی کے بچاؤ کی جدوجہد میں مصروف ہوتا ہے۔کیاکوئی بھی ذی شعور وطن عزیز میں کورونا کی وبائی صورتحال کے دوران طبی عملے کی خدمات اور قربانیوں کوفراموش کرسکتا ہے۔درحقیقت خوف اور ناامیدی کے اس ماحول میں طبی عملہ امید کی کرن بن کر سامنے آیااس لئے جہاں طبی عملے کا تحفظ اور احترام اور پیشہ ورانہ امور کی ادائیگی میں ان کے ساتھ تعاون ضروری ہے وہاں توقع ہے کہ طبی عملہ طبی اخلاقیات اور بہترین پیشہ ورانہ رویے کااظہار کر کے مریضوں کے حقوق کے تحفظ و احترام کو یقینی بنانے میں بھی فعال کردارادا کرے گا۔ بدقسمتی سے طبی مراکز کے اندر اور باہر طبی عملے کے خلاف تشدد کے واقعات معاشرے کیلئے ایک بڑ اچیلنج ہیں۔ طبی عملے کے خلاف تشدد محض افواہ یا زبانی کلامی بات نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے باقاعدہ تحقیق کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے جس میں ایمبولینس ڈرائیور سے لیکر ڈاکٹرز تک پر تحقیق کی گئی کہ ان پر دوران ملازت کتنے پر تشدد حملے کئے گئے جس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ہر دوسرا ہیلتھ کئیر ورکر کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا شکار ہواہے۔ ہیلتھ کیئر ورکرز کے تحفظ اور ان کی محفوظ اور بہترین ماحول میں طبی خدمات کی ادائیگی کویقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھاتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کوبھی نظر اندا زنہیں کرناچاہئے کہ ہمارے صوبے میں ہرسال تقریباً 26 سوا فراد ڈاکٹر ز بنتے ہیں جن کا انتخاب پچاس ہزار سے زائد طلباء میں سے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز معاشرے کے بہترین دماغ ہوتے ہیں لہٰذا ان کی قدر کرنی چاہئے۔اسی طرح پاکستان کا ہیلتھ سسٹم دنیا بھر میں بہترین اور سستا ترین ہے۔ امریکہ اور یورپ میں پاکستانی ڈاکٹروں کا شمار بہترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے۔ معاشرے میں جو تلخیاں اور نفرتیں ہیں اسکے تدارک میں علماء کرام اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔قوانین کے بنانے اور انکے نفاذ سے زیادہ اہم دلوں کی تبدیلی اور رویوں کی اصلاح ہے۔