انسان کی تعریف یہ ہے کہ دوسروں کو فائدہ دے۔لیکن جو اگلے کو فائدہ نہ پہنچائے اور صرف اپنی ذات کیلئے زندہ ہو۔وہ اگرچہ کہ آدمی تو ہوگا مگر اس کو بنی آدم کہنے میں ایک طرح ہچکچاہٹ ہوگی۔ کیونکہ انسان اُنس سے ہے۔اگر آدمی میں یہ آدمیت نہ ہو کہ اپنے جیسے انسان سے محبت نہ رکھے۔وہ انسان ہو کرانسانیت کے درجہ سے دور ہے۔اگرکسی سے محبت بھی کریں تو صرف محبت ہی کرنے کیلئے انسان کی یہ عمر سخت ناکافی ہے۔مگر حیرانی اس پر ہے کہ یہی آدمی دوسرے سے نفرت کرنے کیلئے کیسے ٹائم نکال پاتا ہے۔علامہ اقبال نے آج سے تقریباً نوے سال پہلے لاہور میں بیٹھ کر اپنے والد صاحب کو سیالکوٹ خط روانہ کیا تھا۔ جس میں انھوں نے لکھا تھاکہ ”ہم میں سے بیشتر انسان حیوانوں کی سی زندگی بسرکرتے ہیں“۔ بات دل کو لگتی ہے۔ سو سال ہونے آئے ہیں آج بھی چاروں اور دیکھیں تو یہی انداز یہی اطوار ہیں۔آدمی آدمی کادشمن ہے اور قوم قوم کے خون کی پیاسی ہے۔جس پر اب تک دنیا میں دو عالمگیر جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔انسان بھی کھاتا پیتا ہے اور جانور بھی کھاتے پیتے ہیں۔جس طرح انسان زندگی گزارتا ہے اسی طرح جانور بھی زندہ ہیں۔مگر ان دونوں میں فرق عقل کا ہے۔حیوانوں کو عقل نہیں ملی‘یومِ حساب تو انسانوں کیلئے منعقد ہوگا۔ یہاں اس دنیا میں آدمی نے قدرت کی ودیعت کردہ عقل کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے۔ وہ اس عقل سے اچھے برے کی تمیز نہیں کررہا۔ دو بندے آپس میں الجھے ہوئے تھے۔ ایک کہتا تھاکہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی یہ وجہ ہے۔دوسرا اپنی سی وجہ بتلاتا۔ دونوں میں جھگڑا زیادہ ہواتو وہ ایک دانا کے پاس گئے۔اپنا معاملہ بیان کیا۔ دونوں فریقین میں سے ہر ایک نے آدمی کے اشرف المخلوقات ہونے کی اپنی اپنی وجہ بیان کی۔ ایک نے کہا کہ انسان اس لئے اشرف المخلوقات ہے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکتا ہے۔ دانا شخص نے کہا یہ بات نہیں۔ یہ اچھے اور برے میں تمیز تو گدھا بھی کرتا ہے۔اس کے سامنے دو ڈرم رکھ دو۔ ایک میں صاف پانی اور دوسرے میں گندا پانی ہو۔مگر گدھا صاف پانی والے ڈرم میں منہ ڈال کرپانی پئے گا۔ دانا نے کہا انسان اس لئے اشرف المخلوقات ہے کہ اس کو یہ علم حاصل ہے کہ اگر ایک چیز اچھی ہے تو وہ مقدار کے لحاظ سے کتنی اچھی ہے۔اگر ایک چیز بری ہے تو فقط بری نہیں بلکہ کتنی بری ہے۔یہ مقدار کا تعین کرنا انسان کاکام ہے۔بعض جانور اچھے اور برے میں صرف تمیز ہی کر سکتا ہے۔مگر انسان اچھے اوربرے میں اس قدر فرق کر سکتا ہے کہ یہ چیز اگر اچھی ہے توکتنی اچھی ہے اور اگر بری ہے تو کتنی بری ہے۔ یہی وہ صفت ہے کہ جس نے انسان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے تمام مخلوقات پرفوقیت دی گئی ہے اگر اپنی اس صفت کو انسان بروئے کار نہ لائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے خود اپنا مقام گھٹا دیا ہے۔یعنی زندگی گذاری جائے یہ انسان کا منصب نہیں۔یہ تو ہر قوم ہر فرد کا اپنا اپنا سٹائل ہے کہ وہ زندگی کیسے گذارتا ہے۔ اسی طرح جانور بھی زندگی گذارہی لیتے ہیں۔مگر اپنے سے انداز کے ساتھ۔ یہ مہارت انسان کو عطا ہوئی ہے کہ وہ یہ سوچے کہ میں نے زندگی گذارنا تو ہے مگر اچھے طریقے سے زندگی کیسے گذاری جائے اس پر عمل کرنا کمال ہے۔چین میں کہاوت ہے کہ اگر تمہارے پا س کچھ بھی نہیں بچ پایا۔ پھر صرف دو پیسے بچے ہیں۔ مگر تمہیں نہیں چاہئے کہ زندہ رہنے کیلئے دونوں پیسوں ہی کی روٹی خرید کر کھا لو۔بلکہ ایک پیسے کی روٹی لو اور ایک پیسے کاپھول لینا۔ روٹی تمہیں حیاتیاتی طور پر زندہ رکھے گی اور پھول تمھیں زندہ رہنے کا سلیقہ سکھلائے گا۔ پھول کی طرح زندہ رہا جائے۔کیونکہ ہر آدمی پھول کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کی خوشبو کو دل و دماغ میں اُتارنا چاہتا ہے۔پھول کی طرف چاہت کا ہر ہاتھ بڑھتا ہے کہ مجھے مل جائے۔موتی میں اس کی پہچان اور اس کی عزت و توقیر اس کی چمک کی وجہ سے ہوتی ہے۔وگرنہ چمک نہ ہوتوموتی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔اپنے لئے جینا بھی کوئی جینا ہے۔جب تک دوسروں کیلئے نہ جیا جائے زندگی گذارنے کا اور زندہ رہنے کاحق ادا نہیں ہوتا۔اس لئے اگر اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے کرچلا جائے تو اس میں دوسرے کابھلا تو ہے مگر اس میں اپنا بھلا بھی ہے۔کیونکہ کل معلوم نہیں کون گدا بادشاہت کے رتبے پر پہنچ جائے اور کون بادشاہ تبدیلی وقت سے گدا بن جائے۔اس کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے اوراق الٹنے سے مل جائیں گی۔اس لئے جو دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے ساتھ بھلا کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ برائی کرنے والے پر اس کی اپنی برائی پلٹ کر ضرور آتی ہے کیونکہ یہ تو دائرے کا سفر ہے۔ آج جو نیچے ہے وقت کاپہیہ گھومنے سے وہ اوپر چلا جائے گا اور جو اوپر تھا وہ نیچے آ رہے گا۔