نابینا افراد میں جینیاتی عمل سے جزوی بصارت بحال

اوریگون: امریکہ میں دو نابینا افراد نوبیل انعام یافتہ کرسپرٹیکنالوجی کی بدولت اب دوبارہ رنگوں کو دیکھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔

دونوں افراد پیدائشی طور پر نابینا تھے اور ان میں سے ایک کارلین نائٹ اپنے کال سینٹر میں چھڑی کے سہارے سے چلتے ہوئے بھی لوگوں سے ٹکراتی رہتی تھیں۔ اپنے جینیاتی نقص کی وجہ سے وہ تقریباً نابینا تھیں لیکن اب کرسپر ٹیکنالوجی سے وہ میز، دروازوں اور دیگر اشیا کو پہچان سکتی ہیں اور رنگ بھی دیکھ سکتی ہیں۔

کارلین ان سات مریضوں میں شامل ہیں جن سے ڈاکٹروں نے رابطہ کرکے انہیں ایک تجربے کا حصہ بننے کا کہا۔ اس کے تحت جسم کے اندر پہلے سے موجود متاثرہ جین کو کرسپر ٹیکنالوجی کے تحت تبدیل شدہ جین سے بدلنا تھا۔ یہ کرسپر کا پہلا تجربہ بھی ہے جس میں بینائی کو ہدف بنایا گیا ہے۔

تجربے میں شامل سات مریض ایک قسم کی جینیاتی نابینا پن ’لیبر کونجینینٹل ایمیوروسِس‘ کے شکار تھے۔ تاہم تجربے کے بعد تمام لوگوں کی بینائی واپس نہیں آئی بلکہ اس کا اثر مختلف لوگوں پر مختلف ہوا۔

اوریگون میں واقع ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے شعبہ بصریات کے پروفیسر مارک پینیسی نے اسے ایک طاقتور ٹیکنالوجی کہا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ابھی بہت سارے مریضوں پر آزمائش باقی ہے جس کے بعد ہی اس جینیاتی ٹیکنالوجی کی افادیت سامنے آسکے گی۔ تاہم انہوں نے ابتدائی نتائج کو بہت امید افزا بیان کیا ہے۔

کارلین اس علاج سے بہت خوش ہیں کیونکہ انہیں اشیا بہت صاف اور شفاف دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک روز قبل انہوں نے باورچی خانے میں چمچہ گرایا اور اسے دیکھ کر اٹھا بھی لیا۔

دوسرے رضاکار مائیکل کیلبرر کا حال مختلف ہے ایک ماہ بعد وہ کئی رنگوں کو دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ اسی طرح ایک پارٹی میں رنگ برنگی روشنیاں پہلی مرتبہ دیکھ کر بہت مسرور بھی ہوئے ہیں۔

ڈاکٹروں نے پیدائشی نابینا مریضوں کی ایک ایک آنکھ میں کرسپر ٹیکنالوجی آزمائی۔ انہوں نے ایک بے ضرر وائرس پر کرسپر جین ایڈیٹر رکھ کر ان کی کروڑوں اربوں کاپیاں آنکھ کے ریٹینا میں شامل کردیں۔

سائنسدانوں کے توقع کےمطابق کرسپر جب ریٹینا کے خلیات میں گھسے تو انہوں نے بینائی کھونے والی جینیاتی تبدیلیوں کو روکا اور خوابیدہ خلیات کو جگا کر بینائی کو بحال کرنا شروع کردیا۔

تجربے میں شریک افراد کی عمریں 40 سے 55 برس کے درمیان ہیں اور اس عمر میں بھی یہ کامیابی نابینا افراد کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔ اگلے مرحلے میں مزید رضاکاروں پر اسے آزمایا جائے گا۔