فیصلہ کن گھڑی 

بھارت دھیرے دھیرے افغانستان کے ساتھ اپنے روابط دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس ضمن میں جو پہلا قدم اس نے اٹھایاہے وہ ہے افغانستان کے ساتھ فضائی سروس کا دوبارہ اجراء‘ اس کے بعد کابل میں سفارت خانہ کھولنے کا پروگرام ہے‘ پچھلے ادوار میں تو افغانستان کی حکومتوں نے بھارت کو کھلی اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ افغانستان میں جتنے بھی قونصل خانے کھولنا چاہے کھول سکتا ہے چنانچہ اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ایک درجن کے قریب قونصل خانے افغانستان میں قائم کئے تھے جن کا واحد کام پاکستان کے خلاف سازشوں کی پلاننگ کرنا تھا لہٰذا اب دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت بھارت کو کتنے قونصل خانے کھولنے کی اجازت دیتی ہے۔ امریکہ کی سیاسی قیادت اور عسکری حکام پاکستان پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا نے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس کے لئے طرح طرح کے جواز ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ پاکستان کو معاشی طور پر اسی طرح برباد کر دیا جائے کہ جس طرح کسی زمانے میں امریکیوں نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کو معاشی طور پرپریشان کیا تھا‘ چلو ایران تو وہ پابندیاں سہہ گیا کیونکہ اس کے پاس دنیا کو بیچنے کے لئے تیل کی دولت موجود تھی جو وہ دنیا میں اپنے دوست ممالک کو بیچتا رہا اور اس سے حاصل کی گئی رقم سے اپنی معاشی ضروریات کوپورا کرتا رہا پر اگر اس قسم کی اقتصادی پابندیاں پاکستان پر لگیں تو ہم کیا کریں گے یہ ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ امریکی سینٹ میں پاکستان مخالف بل زیر سماعت ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کے منظر عام پر آنے تک اس پر کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو چکا ہو امریکی سینٹ میں پاکستان مخالف بل میں پاکستان پر افغان طالبان کو پناہ دینے کا الزام دھرا گیا ہے‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بل کے پیش کرنے میں ریپبلکن پارٹی کے اراکین کا بڑا ہاتھ ہے یہ وہی رپبلکن پارٹی ہے کہ جس کے بارے میں اکثر سیاسی مبصرین کہا کرتے تھے کہ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے وہ پاکستان نواز ہے اور وہ پاکستان کے لئے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتی ہے اس بل میں کہا گیا ہے کہ طالبان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے اور پاکستان سمیت طالبان کو مدد دینے والی ریاستوں اور غیر ریاستی افراد کی نشاندہی کی جائے‘ بل میں طالبان کی معاونت کرنے والے افراد اور ممالک پر پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے‘اس بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے طالبان کو 2001 ء سے 2020ء تک مالی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی‘آج کل امریکی میڈیا میں پاکستان کے متعلق جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں چند ماہ میں جو حالات پیدا ہوئے اگلے چند ہفتوں میں اس کا سارا ملبہ پاکستان پر گرانے کی کوشش کی جائے گی‘ امریکی سینٹ میں طالبان اور ان کے حامی ممالک پر پابندیوں کا بل پیش ہونے کے بعد گزشتہ بدھ کو پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کافی حد تک کریش ہو گئی‘ پینٹاگان کا یہ موقف ہے کہ طالبان کے ابھی تک القاعدہ سے روابط ختم نہیں ہوئے اور یہ کہ وہ منظم ہو کر دوبارہ امریکہ پر حملہ کر سکتے ہیں جس طرح کہ انہوں نے نائن الیون میں کیا تھا اسی بات کو بنیاد بنا کر امریکہ پاکستان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے اس پر اقتصادی پابندیوں کی بات کر رہاہے۔