تاریخ کے سفر کا خلاصہ یہ ہے کہ ماضی حال اور مستقبل ایک قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جدت کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو‘ یہ کسی نہ کسی صورت اور بسا اوقات انتہائی تیزی سے متروک ہوتے تاریخ اور ورثے بن جاتی ہے۔ اِس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم پشاور کی نسبت اور پشاور سے نسبت کو دیکھتے ہیں تو یہ دو الگ الگ موضوعات اور حقیقتیں اگر کسی ایک مقام پر اکٹھے ایک دوسرے کو چار چاند لگا رہی ہوتی ہیں تو وہ اردو ہندی فلموں کے معروف اداکاروں یوسف خان المعروف دلیپ کمار اور راج کپور خاندان کے آبائی گھروں کی صورت نشانیاں ہیں۔ یہ آبائی گھر درحقیقت ایک ایسے دور کی یادگاریں بھی ہیں‘ جب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہل پشاور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے۔پشاور کے ثقافتی ورثے کی بھی خاص اہمیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے ’آبائی مکانات‘ سے سیاحتی فوائد حاصل کرنے کے بارے سوچا تاہم تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے اِس سوچ کو عملی جامہ پہنایا ہے اُور خوشخبری یہ ہے کہ گزشتہ ماہ (ستمبر دوہزاراکیس) کے اختتام سے چند روز قبل‘ مذکورہ خستہ حال مکانات کی اصل حالت میں تعمیرومرمت اُور بحالی کے عملی کاموں کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کی نگرانی محکمہئ آثار قدیمہ و عجائب گھر کر رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ رواں برس جون میں مذکورہ دونوں مکانات کو خریدا گیا تھا جن کی قیمت فی مرلہ 15 لاکھ روپے لگائی گئی تھی۔ ڈھکی دالگراں میں کپور حویلی کی کل قیمت ایک کروڑ پندرہ لاکھ جبکہ محلہ خداداد میں واقعہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کی کل قیمت 72لاکھ روپے ادا کی گئی۔ بنیادی سوال یہ ہے مکانات خریدنے کا مرحلہ تو خوش اسلوبی سے طے پا گیا اب دوسرے مرحلے میں اِن مکانات کی تعمیرومرمت و بحالی کرنی ہے اور تیسرے مرحلے میں انہیں ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ باقی ماندہ دونوں کام نہ صرف یہ کہ آسان نہیں بلکہ اِن کے لئے خطیر رقم بھی درکار ہوگی۔کپور حویلی کا معاملہ دلیپ کمار کے آبائی گھر سے مختلف ہے کیونکہ اِس تک رسائی کا راستہ اور آس پاس کشادگی کا احساس زیادہ ہے جو سیاحوں کی آمدورفت کے لئے مناسب ہے لیکن دلیپ کمار کے گھر تک رسائی اور آمدورفت پرپیچ راستوں کی وجہ سے آسان نہیں ہو گی‘ محکمہئ آثار قدیمہ کے فیصلہ سازوں سے ہوئی بات چیت سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ مکانات کی تعمیرومرمت اور بحالی کے کام میں دو سے ڈھائی برس لگ سکتے ہیں اِس سلسلے میں تعمیراتی امور کے ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جا رہا ہے جو مکان کے خاکے اور اِس کی بحالی سے متعلق سفارشات مرتب کریں گے جس کے بعد لاگت کا درست تخمینہ لگایا جا سکے گا۔ محکمہئ آثار قدیمہ کی کوشش ہے کہ مکان کو عالمی معیار کے مطابق مرمت و بحال کیا جائے۔صوبائی فیصلہ ساز اگر متوجہ ہوں تو مذکورہ دونوں مکانات کو بحال کرنے کی بجائے اِنہیں جوں کا توں نمائش کیلئے پیش کیا جائے اُور ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل نہ کیا جائے‘پشاور کی تاریخ و ثقافت کو وسیع تناظر اُور کثیرالجہتی انداز میں دیکھنے سمجھنے اُور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ سازوں کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ آج پشاور کے جس ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اِس کے خدوخال پوری طرح واضح ہونے چاہئیں۔